1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی ایل پی کا دھرنا ختم، ’عمران خان کو ایک ٹریلر دکھایا ہے‘

عبدالستار، اسلام آباد
17 نومبر 2020

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چئیرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ریاست نے ایک بار پھر انتہا پسندوں کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے۔

تصویر: ARIF ALI/AFP

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے حوالے سے ملک کے کئی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے۔ کچھ اسے ریاست کی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں تو کچھ اس حکومتی پالیسی کو سراہا رہے ہیں۔

حکومت کے ایک اہم ذمے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم نے انہیں کہا ہے کہ سفیر کو نکالنے اور اپنے سفیر کو فرانس نہ بھیجنے کے معاملہ کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں گے اور پھر یہ پارلیمنٹ پر منحصر ہو گا کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔"

حکومت کی طرف سے ان مطالبات کو ماننے کی یقین دہانی نے سول سوسائٹی کو چراغ پا کردیا ہے جبکہ سیاست دان بھی ریاستی پالیسی کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

تصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

ریاست نے سرنڈر کیا

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چئیرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ریاست نے ایک بار پھر انتہا پسندوں کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے، ''ہماری ریاست نے ہمیشہ مذہبی عناصر اور جہادی تنظیموں کو سر پر چڑھایا ہے اور ان کی انتہا پسندی کو نظر انداز کر کے ان کو خوش کرنے میں لگی رہی۔ کبھی ہم نے اچھے اوربرے طالبان کا گیم کھیلا، جس سے پاکستان اور پاکستانی معاشرے کو سخت نقصان ہوا اور اب ہم خادم رضوی اور دوسرے مولویوں کو خوش کر رہے ہیں۔ ریاست نے جو کیا ہے، اس سے اس کی ان مذہبی انتہا پسندوں کے سامنے کمزوری ظاہر ہوئی ہے اور اس سرنڈر کی وجہ سے وہ تین مہینے بعد اسلام آباد پھر آجائیں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جیسے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے، ''ریاست اپنی رٹ قائم کرے، نیشنل ایکشن پلان کے ان حصوں پر بھی عمل کرے، جو مذہبی اور انتہا پسندوں تنظیموں کے حوالے سے ہیں اور ان کی نفرت آمیز سرگرمیوں کو روکے ورنہ ہمارے معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔‘‘

یہ ڈرامہ ہے

بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیساںی کا کہنا ہے کہ ریاست تہتر سال سے یہ ہی کر رہی ہے، جو اس نے کل پیر کو کیا، ''لیکن موجودہ سیاسی ماحول میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ خادم رضوی کا ڈرامہ رچایا گیا کیونکہ کچھ طاقتورعناصرعمران خان سے خوش نہیں ہیں اور وہ ایک بحران پیدا کر کے ان ہاوس تبدیلی چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے عمران خان کو ایک ٹریلر دکھایا ہے۔ آگے بھی کچھ اور ہوسکتا ہے۔‘‘

ان کا دعوی تھا کہ یہ مذہبی عناصر کسی کے کہنے پر ہی باہر آتے ہیں، ''کیا سارے پاکستان نے نہیں دیکھا تھا کہ ماضی میں کون ان کو فیض آباد لایا اور پھر پیسے تقسیم کئے۔ ان مذہبی تنظیموں کی بھی مختلف ممالک کے حوالے سے مختلف پالیسی ہے۔ چین میں مسلمانوں کے ساتھ اتنے مسائل ہیں لیکن یہ کبھی ان کے خلاف نہیں بولتے۔ صرف مغرب کے خلاف نکل پڑتے ہیں۔‘‘

تصویر: Reuters/M. Raza

 

فرانس مخالف پالیسی آسان نہیں

 کئی سیاسی مبصرین اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی حکومت نے یہ کہہ تو دیا ہے کہ فرانس کے سفیر کو نکالنے کے لیے معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی اور یہ کہ پاکستانی سفیر کوفرانس نہیں بھیجا جائے گا۔ ان کی رائے ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت یہ فیصلے عملی طور آسان نہیں ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ حکومت یہ کام کرے گی کیسے؟ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فرانس یورپی یونین کا دوسرا بڑا ملک ہے اور جوہری طاقت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ویٹو پاور بھی ہے۔ آپ کیسے ایک ایسے ملک کے سفیر کو نکال سکتے ہیں اوروہ بھی اس وقت جب ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہو۔ اگر آپ اپنا سفیر نہیں بھیجتے تو نقصان آپ کا ہوگا۔ آپ کو یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دیا ہے اور یاد رکھیے کہ اس یونین میں فرانس کا بہت اثر ورسوخ ہے۔ تو مولویوں کے دباؤ میں آکر حکومت اپنے پیر پر خود کلہاڑی مارے گی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی مشکل ہے، ''آپ کے معراج طیارے اور اگسٹو مرین کہاں سے آئی ہیں۔ تو میرے خیال میں حکومت نے سرنڈر کیا ہے لیکن اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لبیک کے مطالبات کو مان لے۔‘‘

کوئی سرنڈر نہیں کیا

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ ایک جمہوری جماعت ہے، جو جلسے جلوسوں کو دبانے پر یقین نہیں رکھتی بلکہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ خادم رضوی کے سامنے نے حکومت نے کوئی سرنڈ ر نہیں کیا۔

 

انہوں نے کہا، ''ہم نے جو ان سے وعدے کیے ہیں، وہ پورے کریں گے۔ وہ یہاں آئے تھے اور انہوں نے اپنے مسائل اور مطالبات حکومت کے سامنے رکھے۔ حکومت نے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کیے۔ میں اس تاثر کو بھی زائل کرنا چاہتا ہوں کہ اس دھرنے کا ایجنسیوں سے کوئی تعلق ہے یا اسے ایجنسیوں نے کرایا تھا۔ ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جلسے جلوس کرے اور ٹی ایل پی نے بھی اپنے اس جمہوری حق کو استعمال کیا۔‘‘

یاد رہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے اتوار کو اپنا دھرنا لیاقت باغ راولپنڈی سے شروع کیا تھا، جو اتوار ہی کی رات فیض آباد، اسلام آباد پہنچ گیا تھا، جس کی وجہ سے انتظامیہ میں ہلچل مچ گئی تھی اور اس نے جڑواں شہروں میں موبائل فون سروس بند کردی تھی۔ دونوں شہروں میں ہونے والے کیمبرج کے امتحانات کو بھی اس کی وجہ سے ری شیڈول کیا گیا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے کئی بازار اور مارکیٹیں بھی بند رہیں جب کہ ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوئی۔

حکومت نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے شیلنگ، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال بھی کیا۔ اس کےعلاوہ ٹی ایل پی کے کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن مولانا خادم رضوی کے گروپ نے پیچھے ہٹںے سے انکار کردیا۔ آخر کار حکومت اور ٹی ایل پی میں مذاکرات ہوئے، جس میں حکومت نے ٹی ایل پی کے مطالبات ماننے کی یقین دہاںی کرائی۔ ٹی ایل پی کے مطالبہ تھا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالا جائے۔ فرانس سے پاکستانی سفیر کو بلایا جائے اور فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ٹی ایل پی نے کارکنان کی رہائی کا مطالبہ بھی ان مطالبات میں شامل کیا گیا۔

’میرے شارلی ایبدو کا وجود ختم ہو گیا ہے‘

03:25

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں