1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی ایل پی کا معاملہ اور وفاقی وزراء کے متضاد بیانات زیربحث

عبدالستار، اسلام آباد
29 اکتوبر 2021

تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے تناظر میں پاکستان کے وفاقی وزراء کے متضاد بیانات نے کئی حلقوں کو پریشان کردیا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ایسے بیانات سے صورتحال میں مزید غیر یقینی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔

Pakistan Mehrere Tote bei Protesten von verbotener Islamistenpartei
تصویر: Arif Ali/AFP

تحریک لبیک پاکستان کا مارچ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس دوران خبریں ہیں کہ حکومت اور اس تنظیم  کے سربراہ سعد رضوی کے ماہین ہونے والی بات چیت فی الحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔

دوسری جانب اس معاملے پر حکومتی وزاء کے بیانات میں واضح تضاد اور ہم آہنگی کا فقدان پایاجاتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف تجاویز دی جا رہی ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ووٹ بینک کم ہونے کا خطرہ، سیاستدانوں کے نظریاتی رجحانات اور خوشامدی سیاست وہ چند پہلو ہیں، جن کی وجہ سے یہ تضادات منظر عام پر آرہے ہیں۔

تصویر: Arif Ali/AFP

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے یہ کہا کہ جو معاہدہ ٹی ایل پی کے ساتھ پہلے کیا گیا تھا اس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کو کوئی علم نہیں اس لیے اب یہ ملبہ عمران خان پر نہیں ڈالنا چاہیے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا،'' تحریک لبیک پاکستان والے ہمارے بھائی ہیں اور ہم اپنے بھائیوں سے لڑنا نہیں چاہتے۔‘‘ جبکہ دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ٹی ایل پی ایک کالعدم جماعت ہے اور سعد رضوی کے خلاف 98 مقدمات ہیں اور کئی پولیس والے شہید ہو چکے ہیں اس لیے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا پڑے گا۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزرا ء کے متضاد بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان کے حاکم بھی طبقات میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ان کے  بقول، ''سب کو معلوم ہے کہ ماضی میں ٹی ایل پی کو کن قوتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ تو کچھ وزراء ان قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ وزراء ان سب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ٹی ایل پی کے خلاف سخت ایکشن چاہتے ہیں۔‘‘

تصویر: Hum TV PR

ڈاکٹر سرفراز کے مطابق اس معاملے میں وزراء کے ذاتی رجحانات بھی اہم ہیں، "شیخ رشید کو تحریک لبیک سے ہمدردی ہے اور وہ اپنے ووٹ بینک کے حوالے سے بھی فکر مند ہیں۔ اس لیے ٹی ایل پی والوں کو اپنا بھائی قرار دے رہے ہیں۔ فواد چودھری کا رجحان لبرل ہے اور اس نے ماضی میں بھی مخالف لائن لی ہے چاہے وہ چاند کا مسئلہ ہو یا کوئی اور، فواد چوہدری نے ملک کے لبرل طبقے کو کسی حد تک خوش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ فیصل واڈا کا مسئلہ خالصتاً عمران خان کی چاپلوسی ہے اور اس کا خوشامدانہ رویہ صرف عمران خان کو خوش کرنے کے لیے ہے۔‘‘

سرفراز خان کا مزید کہنا تھا کہ ان متضاد بیانات سے عوام میں بہت منفی پیغام جاتا ہے،''وزراء متضاد بیانات دے رہے ہیں اور وہاں ٹی ایل پی کا قافلہ رواں دواں ہے، پنجاب کو اس نے مفلوج کر دیا ہے اور کچھ ہی دنوں میں اگر حکومت نے ان کو نہیں روکا تو وہ اسلام آباد کو بھی مفلوج کریں گے، جس سے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچے گا اور لوگوں کی کاروباری زندگی متاثر ہو گی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حاکم طبقے کو ان کا کوئی احساس نہیں ہے۔‘‘

معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ متضاد بیانات حکومت کی بوکھلاہٹ  کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کے پاس کوئی اسٹریٹیجی نہیں ہے اور وہ کنفیوز ہے، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کیا کیا جائے۔ اگر وہ ٹی ایل پی کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہیں اور اس میں خدانخواستہ اموات ہوتی ہیں تو اس کا بھی سخت ردعمل ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ نرمی دکھاتے ہیں تو وہ بھی کمزورنظر آئیں گے، وہ بھی ان کے لیے مسئلہ ہے۔"

سہیل وڑائچ کے مطابق مفتی منیب الرحمان کے اعلان نے حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں،''ٹی ایل پی اور ملک کے مذہبی عناصر کے لیے عوام میں بڑے پیمانے پر حمایت پائی جاتی ہے۔ یہ حمایت اتنی متحرک نہیں ہے لیکن موجود ہے، جہاں تک کاز کی بات ہے، اس کاز کی حد تک تمام لوگ ٹی ایل پی کی حمایت کرتے ہیں۔ تو یہ حمایت بھی پریشانی کا ایک سبب ہے، جس کی وجہ سے حکومت کوئی بھی قدم لینے سے ہچکچا رہی ہے اور وزراء متضاد بیانات دے رہے ہیں۔"

پاکستان تحریک انصاف لاہور سے تعلق رکھنے والی زاہدہ نذر کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ٹی ایل پی کے حوالے سے وزراء اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال سے شیخ رشید صاحب کو اس طرح کا بیان نہیں دینا چاہیے تھا کہ وہ سب سے بڑے مذہبی ہیں اور حکومت کو مزید ان لوگوں سے بات چیت نہیں کرنا چاہیے۔ پہلے انہوں نے لاہور کو مفلوج کرکے رکھ دیا پھر جی ٹی روڈ کو مفلوج کر کے رکھا، لوگ ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ حکومت ایکشن کیوں نہیں لے رہی ہے۔ حکومت کو ان سے سختی کے ساتھ نمٹنا چاہیے، یہ متشدد گروپ ہے، جو صرف اسلام کا نام استعمال کر رہا ہے اور ملک کو بد نام کر رہا ہے۔ لہذا ان سے بات چیت کرنے کے بجائے ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے اور ریاست کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ کوئی بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے گا تو اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘‘

نیشنل پارٹی کی رہنما اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی یاسمین لہڑی کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہیں، اسی لیے ان کے خلاف اقدامات کرنے سے حکومت گریزاں ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کے وزیروں نے ماضی میں ان لوگوں کی حمایت کی اور اب ان کے لیے مشکل ہے کہ وہ کھل کے ان کی مخالفت کریں اس لیے وہ الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں، جس سے مزید بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ ماضی میں حکومت کے لوگوں ہی نے ان کی سرپرستی کی، اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہو رہی ہے۔‘‘

تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہرے

03:04

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں