1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی بیگز اربوں مائیکرو پلاسٹک ذرات جسم میں منتقل کرنے کا سبب

19 جنوری 2025

چائے پاکستانیوں کا پسندیدہ ترین مشروب ہے۔ خاص طور پر موسم سرما میں چائے روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ تصور کی جاتی ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق ایک ٹی بیگ سے اربوں کی تعداد میں مائیکرو پلاسٹک ذرات جسم میں منتقل ہوسکتے ہیں۔

چائے کی کمپنیاں ٹی بیگ کی تیاری میں پولی پروپائیلین کا استعمال کرتی ہیں
چائے کی کمپنیاں ٹی بیگ کی تیاری میں پولی پروپائیلین کا استعمال کرتی ہیںتصویر: Imago/Newscast

دنیا بھر میں سب سے زیادہ پیئے جانے والے مشروبات میں ایک چائے بھی ہے۔ پاکستان سمیت بہت سی ثقافتوں میں چائے دن کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ گزرتے وقتوں کے ساتھ چائے بنانے کے طریقوں میں بھی تبدیلیاں آئیں اور بتدریج ٹی بیگز کا استعمال بڑھتا گیا۔

سن 2022 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریبا 5 ارب ٹی بیگز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی برس کیے گئے ایک اور سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ روزانہ چائے پینے والے 51 فیصد افراد صرف ٹی بیگز کا استعمال کرتے ہیں جبکہ 20 فیصد زیادہ تر ٹی بیگز کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔

آٹو نومس یونیورسٹی آف بارسلونا، اسپین کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ایک ٹی بیگ سے صرف 1 ملی لیٹر پانی میں اربوں کی تعداد میں مائیکرو اور نانو پلاسٹک کے ذرات انسانی جسم میں منتقل ہو سکتے ہیں۔

یہ تحقیق 2023 میں اسی ٹیم کی ایک اور تحقیق کا تسلسل ہے جس میں محققین نے مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ٹی بیگز کے انسانی صحت پر مضر اثرات کا جائزہ لیا تھا۔ نئی تحقیق میں ان سائنسدانوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی  کی مدد سے مختلف مٹیریل سے تیار کردہ ٹی بیگز سے خارج  ہونے والے پلاسٹک کے ذرات کے درست اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔

 کون سا ٹی بیگ زیادہ مضر صحت ہوتا ہے؟

ایلبا گارشیا روڈریگیوز اس تحقیق کی شریک مصنف ہیں اور آٹو نومس یونیورسٹی آف باسلونا سے بحیثیت محقق وابسطہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے جدید کٹنگ ایج ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹی بیگز سے خارج ہونے والے مائیکرو اور نانو پلاسٹک کے ذرات کے کیمیائی اور طبعی خواص معلوم کیے۔ اس طرح انھیں ان ذرات کے انسانی صحت پر مضر اثرات سے متعلق درست معلومات حاصل ہوئیں۔

چائے کی کمپنیاں ٹی بیگ کی تیاری میں پولی پروپائیلین کا استعمال کرتی ہیںتصویر: Carmen Steiner/Design Pics/IMAGO

اس تحقیق میں تین طرح کےٹی بیگز کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ان میں سب زیادہ مضر  پولی پروپائیلین سے بنے ہوئے ٹی بیگز ہیں جو ایک ملی لیٹر پانی میں 1 اعشاریہ 2 ارب ذرات شامل کرتے ہیں جن کا اوسط سائز 136 نانو میٹر ہوتا ہے۔

سیلون چائے کے ’جنسی فوائد ‘

دوسرے نمبر پر سیلولوز سے بنے ہوئے ٹی بیگز ہیں جو ایک ملی لیٹر پانی میں 135 ملین ذرات شامل کرتے ہیں جن کا اوسط سائز 244 نانو میٹر ہوتا ہے۔ جبکہ تیسرے نمبر پور نائیلون سے بنے ہوئے ٹی بیگز ہیں جو 8 اعشاریہ 2 ملین ذرات خارج کرتے ہیں جن کا اوسط سائز 138 نا نو میٹر ہوتا ہے۔

ٹی بیگز انسانی صحت کو کیسے نقصان پہنچاتے ہیں؟

 سائنسی جریدے سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہونے والے اس تحقیق کے مقالے میں محققین لکھتے ہیں کہ پلاسٹک کے مائیکرو اور نانو سائز کے ذرات انسانی اعضاء، بافتوں اور خلیات کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ ان سے جسمانی مدافعتی نظام  کمزور ہونے کے علاوہ طویل مدتی اثرات جیسے جینو ٹاکسٹی اور سرطان کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

چائے پاکستان کا قومی مشروب

اگرچہ پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس ہے مگر اس کی نسبت یہاں چائے زیادہ پی جاتی ہے۔ پاکستان فی کس چائے کے استعمال کے لحاظ سے دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں ہر بالغ فرد سال میں ڈیڑھ کلو گرام چائے  کی پتی استعمال کرتا ہے۔

 2022 میں ادارۂ شماریات کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جولائی سے دسمبر 2022 کے دوران پاکستانیوں نے 194 ارب روپے کی چائے پی تھی۔ ان چھ ماہ کے دوران پاکستان کی چائے کی در آمدات میں 5 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیاتھا۔

اگرچہ پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس ہے مگر اس کی نسبت یہاں چائے زیادہ پی جاتی ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

کیا پیپر ٹی بیگز مضر صحت ہوتے ہیں؟

زین قاضی فیصل آباد انجینئرنگ یونیورسٹی کے شعبۂ میکینیکل انجینئرنگ سے بحیثیت محقق وابسطہ ہیں اور ایک معروف ٹی کمپنی میں انٹرن شپ کر چکے ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر کھلی چائے کی پتی استعمال ہوتی ہے مگر آہستہ آہستہ ٹی بیگز کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ خصوصا دفاتر اور اپر کلاس کے گھروں میں اب ٹی بیگ ہی استعمال کئے جاتے ہیں۔

زین بتاتے ہیں کہ بہت سی چائے کی کمپنیاں ٹی بیگ کی تیاری میں پولی پروپائیلین کا استعمال کرتی ہیں جو ایک پلاسٹک پولیمر ہے۔ یہ دیگر میٹیریل جیسے فلٹر یا سادہ پیپر کی نسبت سستا ہوتا ہے لیکن اس سے بنائے گئے ٹی بیگز میں 30 فیصد پلاسٹک شامل ہوتی ہے۔ انھیں جب گرم پانی میں ڈالا جاتا ہے تو یہ حرارت کو سیل کرنے کے لیے بہت بڑی تعداد میں مائیکرو اور نانو سائز کے پلاسٹک کے ذرات چائے میں شامل کرتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔

کون سے ٹی بیگز محفوظ ترین ہیں؟

زین قاضی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان میں کوئی قابل ذکر تحقیق نہیں ہوئی کہ یہاں کون سے میٹیریل سے تیار کردہ ٹی بیگز زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جہاں تک ان  کی معلومات ہیں زیادہ تر مشہور پاکستانی ٹی برانڈز جیسے لپٹن، ٹپال، سپریم وغیرہ کے ٹی بیگز مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ فلٹر پیپر سے تیار کیے جاتے ہیں اور انھیں "سٹرنگ اینڈ ٹیگ" ٹی بیگ کہا جاتا ہے۔

 زین کے مطابق فلٹر پیپر سے تیار کردہ ٹی بیگز میں پلاسٹک کا کوئی پولیمر شامل نہیں ہوتا۔ ان بیگز کے ساتھ دھاگہ اور برانڈ کا ٹیگ لگا ہوتا ہے اور انھیں سٹیپل یا سٹچ کے ذریعے بند کیا جاتا ہے۔ لہذا گرم پانی میں ڈالنے سے یہ مائیکرو پلاسٹک کے ذرات چائے میں خارج نہیں کرتے۔

ایک سوال کے جواب میں زین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں اور بین الا قوامی سطح پر بھی بہت سی چائے کی کمپنیاں جعل سازی سے سٹرنگ اینڈ ٹیگ ٹی بیگ تیار کرتے ہوئے ان میں پلاسٹک شامل کرتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ٹی بیگ خریدیں تو چیک کریں کہ ٹی بیگ کے کنارے مڑے ہوئے تو نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ یقینا مضر صحت ٹی بیگز ہیں کیونکہ مڑے ہوئے کنارے پلاسٹک پولیمر سے بنے ٹی بیگ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

زین کے مطابق دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہماری روزمرہ استعمال والی شاید ہی کوئی شے ایسے ہو جس سے مائیکرو پلاسٹک کےذرات ہمارے جسم میں منتقل نہ ہورہےہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا سب سے آسان حل یہی ہے کہ لوگ چیزیں خریدتے وقت ان کے مضر اثرات سے متعلق مکمل معلومات حاصل کریں اور بڑی برانڈز پر اندھا دھند اعتماد نہ کریں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں