’پائلٹ کاک پٹ سے باہر تھا‘
26 مارچ 2015جرمنی کی سب سے بڑی ایئرلائن لفتھانزا کی ذیلی کمپنی جرمن ونگز کا ایئربس 320 طرز کا طیارہ منگل 24 مارچ کو بارسلونا سے جرمن شہر ڈسلڈورف واپس آ رہا تھا جب وہ آلپس کے پہاڑی سلسلے میں فرانسیسی سرزمین پر گِر کر تباہ ہو گیا تھا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق یہ طیارہ نامعلوم وجہ کے باعث آٹھ منٹ کے وقفے کے دوران 36 ہزار فٹ کی مقررہ بلندی سے محض چھ ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ گیا تھا۔ اور یہ وہ آخری مقام تھا جس کے بارے میں ایوی ایشن آلات کی مدد سے اس طیارے کی پوزیشن کا پتہ چلا تھا۔ اس حادثے میں جہاز میں سوار تمام 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تباہ شدہ جہاز کے بلیک باکس میں موجود کاک پِٹ کی ریکارڈنگ سے معلوم ہوا ہے کہ ایک پائلٹ کی سیٹ پیچھے ہوئی اور پھر دروازہ کھُلا اور بند ہو گیا۔ اس کے بعد دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اے ایف پی کے ذریعے کے مطابق، ’’اس کے بعد طیارے کے گِر کر تباہ ہونے تک کوئی گفتگو سنائی نہیں دیتی۔‘‘ اس ذریعے کے مطابق جہاز کے پہاڑی حصے سے ٹکرانے سے چند ثانیے قبل زمین سے فاصلہ کم ہونے سے خبردار کرنے والا الارم بھی سنا جا سکتا ہے۔
جرمن ونگز کے اس تباہ ہونے والے ایئربس 320 طیارے سے کسی قسم کا خطرے یا مشکل میں گھرے ہونے کا کوئی سگنل نہیں بھیجا گیا تھا جبکہ زمینی کنٹرول کی جانب سے پائلٹ سے رابطے کی کوشش کے باوجود بھی کوئی جواب نہیں مِلا تھا۔
اے ایف پی کے ذریعے کے مطابق کاک پِٹ کی وائس ریکارڈنگ سے معلوم ہوا ہے کہ پائلٹ پرواز کی ابتداء میں نارمل انداز میں جرمن زبان میں بات چیت کر رہے تھے۔ اس ذریعے کے مطابق تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ حادثے سے قبل کاک پِٹ سے باہر جانے والا پائلٹ تھا یا اس کا معاون پائلٹ۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے طیارے کی تباہی کی تحقیقات میں شریک ایک فوجی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ بلیک باکس کے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ کاک پِٹ سے باہر جانے والے پائلٹ نے واپس اندر آنے کے لیے بھرپور کوشش بھی کی۔ تحقیقات میں شامل اس اہلکار نے اخبار کو بتایا، ’’یہ شخص پہلے ہلکے انداز میں دروازے کو کھٹکھٹا رہا ہے مگر کوئی جواب نہیں ملتا۔ پھر وہ دروازے کو قوت سے مارتا ہے مگر کوئی جواب نہیں ملتا۔ آپ سن سکتے ہیں کہ وہ شخص دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
جرمن ونگز کی جانب سے گزشتہ شب جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اس کمپنی کے پاس بدھ کی رات تک مجاز حکام کی طرف سے امریکی اخبار کی بیان کردہ تفصیلات کی تصدیق سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں۔