پابندیوں کی خلاف ورزی: امریکا نے شمالی کوریا کا جہاز پکڑ لیا
9 مئی 2019
امریکا نے کہا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر ایک ایسا شمالی کوریائی بحری جہاز قبضے میں لے لیا گیا ہے، جو کوئلے کی مال برداری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جہاز کا چوبیس رکنی عملہ بھی حراست میں ہے۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات نو مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ شمالی کوریا کا جو مال بردار بحری جہاز قبضے میں لیا گیا ہے، اس کا نام ’وائز آنیَسٹ (Wise Honest) ہے اور اسے عالمی برادری کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمیونسٹ کوریا تک کوئلے کی مال برداری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
امریکی محکمہ انصاف کے حکام نے جمعرات کو واشنگٹن میں اعلان کیا کہ ابتدا میں اس شمالی کوریائی کارگو شپ کو انڈونیشیا کے حکام نے گزشتہ ماہ اپریل میں روکا تھا اور ساتھ ہی اس کے دو درجن افراد پر مشتمل عملے کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ساتھ ہی امریکی حکام نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس بحری جہاز کی مرمت اور اس کے لیے تکنیکی ساز و سامان کی خریداری کی خاطر مالی ادائیگیاں بھی ’غلطی سے‘ امریکی کرنسی ڈالر میں اور امریکی بینکوں کے ذریعے ہی کی گئی تھیں۔
واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامہ کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب امریکا اور شمالی کوریا کے مابین کشیدگی ایک بار پھر عروج پر ہے۔ اس بارے میں واشنگٹن سے ملنے والی اطلاعات سے محض چند ہی گھنٹے قبل جنوبی کوریا کی فوج کے سربراہ نے آج جمعرات ہی کے روز شمالی کوریا پر یہ نیا الزام بھی لگایا تھا کہ اس نے اپنے ایک اور میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ جنوبی کوریائی فوج کے سربراہ کے مطابق کمیونسٹ کوریا نے درمیانے فاصلے تک مار کر سکنے والے اس میزائل کا تجربہ گزشتہ ہفتے کے روز کیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شمالی کوریا کی طرف سے اس نئے میزائل کا تجربہ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ امریکا اور کمیونسٹ کوریا کے مابین ایٹمی تخفیف اسلحہ کے بارے میں مذاکرات خطرے میں ہیں۔
ان دنون ایک اعلیٰ امریکی وفد بھی اس لیے جنوبی کوریا کے دورے پر ہے کہ دونوں کوریاؤں کے مابین عنقریب ہونے والی بات چت کے سلسلے میں سیئول حکومت کے ساتھ مشورے کر سکے۔
م م / ا ا / اے پی
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔