پابندیوں کے باوجود ایران میں امریکی مصنوعات کی بھرمار کیسے؟
11 جولائی 2019
کہنے کو ایران پر امریکا نے اقتصادی پابندیاں لگا رکھیں ہیں، لیکن تہران کے ریستورانوں میں آپ کو لوگ خوشی سے امریکی اشیائے خوردونوش کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔
اشتہار
بات کوکا کولا کی ہو، ہائنزکیچ اپ یا دیگر امریکی چیزوں کی، اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ سب کچھ با آسانی دستیاب ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی پابندیوں نے ایرانی تیل اور دیگر صنعتوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ لیکن آٹھ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں مغربی فلمیں، گانے اور لباس پھر بھی ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب اور امریکی سفارت خانے پر قبضے کے چالیس برس گزر چکے ہیں۔ اس دوران مسلسل 'مرگ بر امریکا‘ کے نعروں سے گونجے والے مظاہروں کے باوجود، ایران کے نوجوان امریکی مصنوعات کے دلدادہ ہیں۔
تہران یونیورسٹی کے اکیس سالہ طالب علم احمد رضایی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوکا کولا کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا، ''امریکی طرز زندگی بہت دلکش ہے اور ہمارے لیے کوکا کولا اس لائف اسٹائل کا ایک حصہ ہے۔‘‘
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔
تصویر: Reuters/Official Khamenei website
12 تصاویر1 | 12
ایران کے ساتھ امریکی صدر باراک اوباما اور یورپی طاقتوں نے مل کر سن دو ہزار پندرہ میں جوہری معاہدہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے صدارتی الیکشن سے پہلے اس کی مخالفت کی اور جیتنے کے بعد اس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تب سے ایران پھر سے معاشی دباؤ کا شکار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن اس کے باوجود کباب کھانے کے بعد کوکا کولا پینا ایرانی عوام کی جیسے روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایران میں کوکا کولا اور پیپسی کا ذائقہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ دونوں کمپنیوں کے لیے مشروب مقامی ایرانی کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ خوش گوار مشہد کمپنی کوکا کولا جب کہ نیسان شرق اور ساسان کمپنی ایران میں پیپسی کولا تیار کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں ایران کی امام رضا فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں جو کہ ایک طرح سےحکومت کا ہی حصہ ہے۔
یورو مانیٹر کی سن 2016 میں تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی مشروبات کی مارکیٹ میں کوکا کولا کا حصہ اٹھائیس جب کہ پیپسی کولا کا حصہ بیس فیصد کے قریب ہے۔
کوکا کولا کا کہنا ہے کہ ایران میں ان کے مشروبات کی فروخت امریکی پابندیوں کے خلاف نہیں ۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کی طرف سے رابطہ کرنے پر کمپنی نے کہا، ہمیں اس کام لیے محدود نوعیت کی اجازت ہے۔ کمپنی کی ایران میں کوئی ملکیت نہیں اور نہ ہی کوئی ٹھوس اثاثے ہیں۔‘‘
تاہم پیپسی کولا نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جب کہ کیچ اپ بنانے والی کرافٹ ہائنز کمپنی کا کہنا تھا، ''کئی دیگر مغربی کمپنیوں کی طرح ایران میں ہماری مصنوعات بھی مقامی ڈسٹری بیوٹر کے توسط سے فروخت کی جاتی ہیں۔ 'ٹباسکو‘ بنانے والی میکل ہینی کمپنی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ڈسٹری بیوٹرز کو اپنی مصنوعات ایران میں فروخت کرنے سے سختی سے منع کر رکھا ہے۔
ٹباسکو کی مصنوعات کی طرح کئی دیگر اشیا بھی ایران میں غیر قانونی طور پر اسمگل کر کے پہنچائی جاتی ہیں۔ تہران کے ایک بڑے شاپنگ مال میں 'ٹامز شُو‘ کمپنی کے تیار کردہ جوتے فروخت کیے جا رہے تھے لیکن کمپنی نے اس بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
بہر حال ایران میں درآمد کی جانے والی امریکی مصنوعات میں سے جو چیز شاید سب سے دلچسپ ہے وہ 'تہران ریسرچ ری ایکٹر‘ ہے۔ یہ ری ایکٹر خود امریکا نے سن 1967 میں 'جوہری پروگرام برائے امن‘ کے تحت تہران کو تحفے میں دیا تھا۔
ش ح / ش ج (اے پی)
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔