پابندی معاملہ پر امریکا اور ایران عالمی عدالت میں آمنے سامنے
14 ستمبر 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تہران کے خلاف عائد پابندیوں کے معاملے پر امریکا اور ایران پیر کے روز ہیگ میں عالمی عدالت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔
اشتہار
جب ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ تاریخی بین الاقوامی نیوکلیائی معاہدے سے امریکا کو الگ کرنے کا اعلان کیا تھا تو تہران امریکا کو ہیگ کی بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں لے آیا تھا۔
دونوں ممالک اس ہفتے اس بات پر اپنے دلائل دیں گے کہ آیا، دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے عمل میں آئے، آئی سی جے کو مذکورہ معاملے پر غور کرنے کا اختیار ہے بھی یا نہیں؟
ایران کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اس کے خلاف عائد پابندیاں دونوں ملکوں کے مابین 1955میں ہونے والے 'معاہدہ دوستی‘ کی خلاف ورزی ہے۔
تہران نے اس کیس میں اکتوبر 2018 میں اس وقت پہلی کامیابی حاصل کی تھی جب آئی سی جے نے حکم دیا تھا کہ ہنگامی اقدام کے طورپر انسانی ضرورتوں کی اشیاء پر عائد پابندیاں نرم کی جائیں۔
امریکا نے گوکہ یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایران پر مغرب نواز شاہ کی حکومت کے دوران معاہدہ ضرور کیا تھا لیکن اب وہ اس معاہدے کو ختم کررہا ہے۔ امریکا نے ایران پر آئی سی جے کو پروپیگنڈہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا بھی الزا م لگا یا تھا۔
پہلے امریکا پیر کے روز اپنے دلائل پیش کرے گا کہ آیا ججوں کو اس کیس کی سماعت کرنے کااختیار ہے یا نہیں۔ ایران اپنا موقف بدھ کے روز پیش کرے گا۔ حالانکہ اس بات کا تعین کرنے میں کئی ہفتے اور حتمی فیصلہ آنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
ایران اور امریکا کے درمیان باہمی تعلقات ایرانی انقلاب کے بعد سے ہی کشیدہ ہیں اور مئی 2018 میں نیوکلیائی معاہدہ سے واشنگٹن کے یک طرفہ طور پر الگ ہوجانے کے ٹرمپ کے اعلان کے بعد سے حالات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے علاوہ جرمنی بھی اس معاہدے میں شامل تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ایران کو محدود نیوکلیائی پروگرام کی اجازت دی گئی تھی۔ واشنگٹن نے ایران اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی کمپنیوں پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں جس کی وجہ سے ایران کے اہم تیل سیکٹر اور اس کے مرکزی بینک پر کافی برا اثر پڑا اور بڑی عالمی کمپنیوں نے ایران میں اپنی سرگرمیاں روک دیں۔
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
10 تصاویر1 | 10
تہران یہ کیس آئی سی جے میں لے گیا اور کیس کا مکمل فیصلہ ہونے تک 'عارضی اقدامات‘ کی ایران کی درخواست پر عدالت کے ججوں نے دو سال قبل اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ان میں سے کچھ پابندیوں سے1955کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
عدالت نے واشنگٹن کو دوائیں، طبی ساز و سامان، خوراک، زرعی اشیاء اور ہوائی جہاز کے پرزے نیز سروسز پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
بین الاقوامی عدالت انصاف امریکا کی طرف سے ایران کے دو ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے سلسلے میں تہران کی جانب سے دائر کردہ ایک دیگر کیس کی بھی سماعت کررہی ہے۔
فروری 2019 میں عدالت نے، امریکا کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہ تہران مبینہ طورپر دہشت گرد گروپوں کی حمایت کررہا ہے، اس کیس پر غور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی)
یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں