پادری کا قتل: فرانس بھر کے مسلمان مسیحیوں کے غم میں شریک
3 اگست 2016یہ حملہ نارمنڈی کے علاقے میں روئیں (Rouen) نامی قصبے کے قریب Saint-Etienne-du-Rouvray کے مقام پر ایک کیتھولک کلیسا میں صبح کی عبادت کے وقت کیا گیا تھا اور اس میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے ساتھ ہم دردی رکھنے والے دو نوجوان مسلمان عسکریت پسندوں نے متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس دہشت گردانہ واقعے میں حملہ آوروں نے ایک 85 سالہ بزرگ پادری ژاک ہامل کا گلا کاٹ کر انہیں قتل کر دیا تھا اور بعد ازاں یہ دونوں حملہ آور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کی جانے والی پولیس کی کارروائی میں خود بھی مارے گئے تھے۔ اس حملے کے کچھ دیر بعد اس کی ذمے داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی تھی۔
اس خون ریز حملے کی نہ صرف تمام فرانس میں شدید مذمت کی گئی بلکہ اس کیتھولک عبادت گاہ میں عبادت گزاروں کے یرغمالی بنائے جانے کے واقعے پر مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے پیروکار اکثریتی مسیحی آبادی کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے لگے تھے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے کے اختتام پر مختلف مذاہب کے نمائندوں نے صدر فرانسوا اولانڈ کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی، جس میں اس حملے کی بھرپور مذمت کی گئی تھی۔
پھر گزشتہ اتوار اکتیس جولائی کے روز پورے ملک میں ہزارہا مسلمانوں نے مسیحی آبادی کے غم میں شریک ہوتے اور جہادی حملہ آوروں کے ہاتھوں پادری ژاک ہامل کے مسیحی عبادت گاہ میں سفاکانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے مختلف کلیساؤں میں ہونے والی اجتماعی عبادات میں شرکت بھی کی تھی۔
ان کلیسائی تقریبات کے دوران مسیحی مذہبی شخصیات نے مسلمانوں اور ان کے مذہبی نمائندوں کی گرجا گھروں میں آمد پر ان کو خوش آمدید کہا اور سب نے مل کر اجتماعی دعائیہ تقریبات میں حصہ لیا۔
نارمنڈی کے فرانسیسی علاقے میں انیس انیس برس کے دو مسلمان انتہا پسندوں کے ہاتھوں اس قتل سے متعلق تلخ حقائق کو سمجھنا اور پھر برداشت کا مظاہرہ کرنا فوری طور پر فرانس کے سبھی مسیحی شہریوں کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ اس لیے کہ یہ خون ریز واقعہ وہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان شدت پسندوں نے یورپ میں کسی مسیحی عبادت گاہ کو اپنے نفرت کے پیغام کے خوں ریز اظہار کے لیے استعمال کیا تھا۔
اس پس منظر میں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ پیرس کے سینٹ میشل کلیسا میں گزشتہ اتوار کے روز ایک کثیر المذہبی اجتماعی عبادت میں مسلمانوں کی شرکت کے دوران پچھلی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھی ایک خاتون نے چیخ کر کہا، ’’میں اس سے متفق نہیں ہوں‘‘ اور وہاں سے رخصت ہو گئی۔
اس پر وہاں موجود پادری نے قریب 120 حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’اس (احتجاج) کے باوجود ہم اپنی اجتماعی دعا جاری رکھیں گے۔‘‘
اس بارے میں پیرس سے جیک چیگائنیرو نے ڈوئچے ویلے کے لیے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ فرانس میں اب اگر اس امر کی ضرورت کہیں زیادہ ہو گئی ہے کہ مذہبی شخصیات کی حفاظت کے لیے بہتر اقدامات کیے جانا چاہییں تو ساتھ ہی یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسند عام لوگوں کو اشتعال دلا کر انہیں مسلمانوں کے خلاف حملوں پر اکسا سکتے ہیں۔
اس بارے میں فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس کا کہنا ہے کہ صرف یہی کافی نہیں کہ فرانس میں بہت سے مسلمانوں نے مسیحیوں کے ساتھ مل کر کلیساؤں میں اجتماعی عبادات میں حصہ لیا۔ ان کا کہنا ہے، ’’فرانس میں اسلام کے (موجودہ) تشخص کو اس حد تک بدلنے کی ضرورت ہے کہ ایک پرامن مذہب اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے مسلمانوں کے طور پر فرانسیسی مسلمانوں کو باقی ماندہ یورپ کے لیے مثالی بنایا جا سکے۔