پاناما لیکس کیس: شریف خاندان کو مشکل عدالتی سوالات کا سامنا
4 جنوری 2017تجزیہ نگاروں کے خیال میں جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور سرحدوں پر کم ہوتی ہوئی کشیدگی نے نواز شریف کی مشکلات کو کم کرنا شروع کر دیا تھا لیکن آج بدھ چار جنوری کے روز سپریم کورٹ کی طرف سے کیے گئے سخت سوالات نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو ایک بار پھر پریشان کر دیا۔
ان سوالات پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سپریم کورٹ نے جو سوالات اٹھائے ہیں، وہ اہم ہیں۔ نواز شریف کے لیے ان سوالات کے قانون اور آئین کی روشنی میں تسلی بخش جوابات دینا نہ صرف مشکل ہو گا بلکہ میرے خیال میں یہ تقریباﹰ ناممکن ہے۔ نواز شریف اور ان کا گھرانہ ان سوالات پر بہت پریشان نظر آتا ہے اور وکیلوں کی بار بار کی تبدیلی اس بات کی عکاس بھی ہے۔ وکیلوں نے یقیناً ان مشکلات کا تذکرہ کیا ہو گا، جو ان سوالوں کے جوابات دینے میں پیش آ سکتی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’بینچ کے موڈ کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ میرے خیال میں ججوں کو سخت سوالات اور ایسے سوالات کرنا چاہییں جو کیس سے متعلق ہوں۔ تاہم معزز جج صاحبان کو اپنی رائے یا نقطہء نظر دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘
پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک رہنما اور پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ حکومت پریشان ہے۔ ’’اگر وکیلوں کی تبدیلی ہماری مشکلات کی مظہر ہے، تو پھر میں یہ کہوں گا کہ وکیل تو پی ٹی آئی نے بھی تبدیل کیے ہیں۔ اکرم شیخ کو علاج کے لیے جرمنی جانا ہے، اسی لیے وکیل تبدیل کیا گیا ہے۔ میر ے خیال میں نون لیگ کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ جو سوالات بھی سپریم کورٹ پوچھے گی، ان کے جوابات دیے جائیں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان کے کسی بھی ادارے کے قانونی و آئینی دائرہ اختیار میں نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک سے بھیجے جانے والے پیسے کے حوالے سے کوئی تفتیش کر سکے۔ شکایت کنندہ کی اصل حجت یہ تھی کہ پیسہ پاکستان سے بھیجا گیا ہے اور ان کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ پیسہ یہاں سے گیا تھا۔ کوئی رقم یہاں سے نہیں بھیجی گئی۔ عدالت نے ہم سے ’مَنی ٹریل‘ مانگا تھا اور وہ ہم جمع کرا چکے ہیں۔‘‘
کچھ تجزیہ نگار نون لیگ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ مشکل میں نہیں ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر امان میمن کے خیال میں حکومت حالیہ مہینوں میں مضبو ط ہوئی ہے۔ ’’میرے خیال میں نون لیگ اس صورت حال پر زیادہ پریشان نہیں ہے۔ عمران خان ججوں پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ آخر میں معاملہ کمیشن کی تشکیل کی طرف ہی جائے گا، جہاں تفتیش کا کام حکومتی ادارے کریں گے اور نون لیگ کے پاس موقع ہو گا کہ وہ وہاں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کے مالیاتی جرائم کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ اس میں رکاوٹوں کے طور پر قانونی اور آئینی پیچیدگیاں پیش آئیں گی،‘‘
لیکن عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف بضد ہے کہ یہ عدالتی سوالات نون لیگ کے حلق میں کانٹا ثابت ہوں گے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما فیصل جاوید خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چونکہ شریف خاندان نے ان فلیٹوں کی ملکیت تسلیم کر لی ہے، اس لیے اب انہیں ’مَنی ٹریل‘ کی تفصیلات بھی فراہم کرنا پڑیں گی۔ اب تک انہوں نے جو جوابات جمع کرائے ہیں، وہ متضاد ہیں۔ مریم نواز نے ایک بات کی ہے۔ حسین نواز نے دوسری اور حسن نواز نے تیسری جب کہ نواز شریف کا قوم سے خطاب اور پھر پارلیمنٹ میں تقریر بھی تضادات کے مجموعے تھے۔ وزیر اعظم کے وکلاء نے اسی لیے اس کیس سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ نواز شریف کی قانونی پوزیشن بہت کمزور ہے۔‘‘