جرمن دفتر استغاثہ کی جانب سے ڈوئچے بینک کے فرینکفرٹ کے دفتر پر چھاپوں کا سلسلہ آج جمعے کے روز بھی جاری ہے۔ جمعرات کو بھی ایک سو ستر اہلکاروں نے ڈوئچے بینک کی عمارت کی تلاشی لی تھی۔
اشتہار
جرمن دفتر استغاثہ کے آج جمعے کو جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ گزشتہ روز چھاپے کے دوران مکمل تلاشی نہیں لی جا سکی تھی اس وجہ سے بقیہ کارروائی آج مکمل کر لی جائے گی۔ ڈوئچے بینک کے ترجمان کے بقول اس سلسلے میں حکام سے مکمل تعاون کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اس کارروائی کا تعلق ’پاناما پیپرز‘ سے ہے۔
جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق ڈوئچے بینک پر شک ہے کہ اس نے تقریباً نو سو صارفین کو ایسے ممالک میں قائم ان کی آف شور کمپنیوں میں رقم منتقل کرنے میں مدد دی تھی، جنہیں ٹیکس چوروں کی جنت کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قریب311 ملین یورو کے برابر کی رقم ان کھاتوں میں بھیجی گئی۔ ذر ائع کے مطابق منی لانڈرنگ کے حوالے سے اس تحقیقاتی عمل کا دائرہ اس بینک کے کئی ملازمین کے گرد گھوم رہا ہے۔
مالیاتی راز داری کے امور کے ماہر مارکس مائنزر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس بات پر بہت حیرت ہے کہ پاناما پیپرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے تناظر میں جرمن حکام نے اقدامات کرنے میں اتنی تاخیر کر دی ہے۔ ان کے بقول، ’’ گزشتہ دو برسوں سے وہ ان دستاویزات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ٹیکس چوری اور مالیاتی جرائم کے معاملات میں بہت زیادہ وقت لیتے ہیں۔‘
‘
پاناما صرف ٹیکس فری جنت ہی نہیں
پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد سے وسطی امریکا کے اس ملک کا نام ہر کسی کی زبان پر ہے لیکن یہ ملک ٹیکس چوروں کی جنت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/Demotix/E. Gerald
پاناما کی پہچان
پاناما نہر بھی بینکوں کے طرح انتہائی اہم ہے۔ 1914ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا تھا اور تب سے یہ اس ملکی آمدنی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ اس نہر کی وجہ سے بحری جہاز بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان سفر کر سکتے ہیں۔ اس نہر سے پہلے بحری جہازوں کو کم از کم تین ماہ زیادہ سفر کرنا پڑتا تھا۔
پاناما کی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد حصہ صرف اس نہر سے حاصل ہوتا ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ دس برسوں سے اس کی توسیع پر کام جاری ہے۔ اندازوں کے مطابق رواں برس جون میں توسیع کا کام مکمل کر لیا جائے گا اور اس طرح کنٹینر لے جانے والے بڑے بحری جہاز بھی اس راستے کو استعمال کر سکیں گے اور پاناما کی معیشت مزید ترقی کرے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Arangua
ایک قدرتی جنت
اس ملک میں آبشاریں، جھرنے، پہاڑ اور جنگل بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یونیسکو نے اس کے نیشنل پارک کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ سالانہ بیس لاکھ سے زائد سیاح اس ملک کا سفر کرتے ہیں تاکہ وہ قدرتی مناظر کو قریب سے دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/Epa efe Fudacion Marviva
جدیدیت اور غربت کے درمیان
پاناما اگر ایک سکہ ہے تو اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ اس ملک کی شہریوں کی اوسط آمدنی دیگر ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن غربت کے نشانات بھی جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاناما شہر کی بلند و بالا عمارتوں کے مضافات میں کئی کچی بستیاں ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Jasso
بالبوآ ایونیو
ملک کی یہ سب سے مہنگی سڑک نہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے بلکہ پاناما شہر کا مرکز بھی بالبوآ ایونیو کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ پاناما کے امراء کا علاقہ ہے، جہاں صرف اس ملک کے مخصوص شہری گھر خرید سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sergi Reboredo
دنیا کا دوسرا بڑا کارنیوال
کارنیوال کا لفظ سن کر ریو کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن یہ جشن پاناما میں بھی انتہائی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس ملک میں دنیا کے دوسرے بڑے چار روزہ کارنیوال کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس دوران ملک بھر میں پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے اور لوگوں نے روایتی علاقائی لباس پہن رکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: imago/Xinhua
قومی جھنڈا اور امریکا کو خراج تحسین
1903ء میں امریکا کی فوجی مداخت کے بعد پاناما نے کولمبیا سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس قومی جھنڈے پر عقاب کا نشان امریکا کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاناما کو سرکاری سطح پر سب سے پہلے امریکا نے تسلیم کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاناما امریکا کا اپنا ’بڑا بھائی‘ سمجھتا ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ڈیوٹی فری شاپنگ
پاناما سٹی میں واقع آلبروک شاپنگ مال کا شمار لاطینی امریکا کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹروں میں ہوتا ہے۔ یہ سیاحوں کی بھی پسندیدہ منزل ہے۔ پاناما کا شمار ’آزاد تجارتی علاقوں‘ میں ہوتا ہے اور وہاں سے انتہائی سستے داموں اشیاء خریدیں جا سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sergi Reboredo
8 تصاویر1 | 8
پاناما پیپرز کے نام سے 2015ء میں تقریباً ساڑھے گیارہ ملین خفیہ دستاویزات منظرعام پر آئیں تھیں۔ ان میں ٹیکس بچانے کے لیے سرمایہ سمندر پار منتقل کرنے والی متعدد اہم معروف سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام درج ہیں۔ اس فہرست میں کم از کم اٹھائیس جرمن شخصیات اور کمپنیوں کے نام بھی ہیں، جس میں جرمنی کا ڈوئچے بینک بھی شامل ہے۔
ستمبر میں جرمنی میں مالیاتی معاملات کے نگران ادارے ’BaFin‘ نے ڈوئچے بینک کو منی لانڈرنگ روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔ ڈوئچے بینک تسلیم کر چکا ہے کہ مالیاتی ضوابط کے تناظر میں رقم کی غیر قانونی منتقلی کو روکنے کا اس کا نظام موثر نہیں ہے۔