پانامہ لیکس کا نہ ختم ہونے والا سایہ
17 مئی 2016قومی اسمبلی کا اجلاس جب شروع ہوا تو کورم پورا نہیں تھا۔ کچھ دیر کے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا، تو مختلف مسودہء قانون پیش کیے گئے۔ حزب اختلاف نے کچھ دنوں پہلے تاثر تو یہ دیا تھا کہ وہ ن لیگ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی لیکن وزیرِ اعظم کی تقریر کے بعد آج متحدہ اپوزیشن منتشر ہوتی ہوئی نظر آئی۔ حزبِ اختلاف کی ایک اہم جماعت متحدہ قومی موومنٹ آج اس سے لا تعلق ہو گئی۔
ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی سید آصف حسنین نے کہا، ’’ اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے کام کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے لیے رعایتیں چاہتی ہے جب کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ ہمارے کارکنان کو ماوارئے عدالت قتل کیا جارہا ہے۔ اندھا دھند گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور ہمارے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن ان مسائل پر بولنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے ہم اس متحدہ حزبِ اختلاف کو خیر باد کہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پانامہ لیکس کی وجہ سے سی پیک اور کئی اور اہم قومی مسائل نظر انداز ہورہے ہیں اور اس ساری بحث کا کوئی نتیجہ نکلتا ہوا نظر نہیں آرہا،’’ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی والوں کے خود پانامہ لیکس میں نام ہیں، تو یہ کیسے ٹرمز آف ریفرنس بناسکتے ہیں۔ یہ صرف وقت کا ضیاع ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا۔‘‘
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی اے این پی بھی اس سے نالاں نظر آتی ہے۔ پارٹی کے سابق صدر اورسابق سینیٹر حاجی عدیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پوری دنیا میں پہلے سوالات کئے جاتے ہیں اور پھر وزیر اعظم ان کے جوابات دیتے ہیں۔ حزبِ اختلاف نے یہ غلطی کی کہ انہوں نے وزیرِ اعظم کو پہلے خطاب کرنے دیا۔ نواز شریف نے جن سوالات کے جواب دیے ہیں انہیں ایوان میں کبھی پیش نہیں کیا گیا۔ انہیں پارلیمان کے سوالات نہیں کہا جا سکتا۔ حزبِ اختلاف نے پارلیمانی روایت کی پیروی نہیں کی۔ اب انہیں پارلیمان کی ایک ایسی کمیٹی بنانی چاہیے جو ججوں، نوکر شاہی، جرنیلوں اور سیاست دانوں سب کا احتساب کرے۔ پہلے تین مہینوں میں وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کا اور پھر بعد میں بقیہ سب کا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ وزیرِ اعظم کی تقریر سے مطمئن نہیں۔’’میں حزب اختلاف کی پارٹی سے ہوں۔ میں وزیرِ اعظم کی تقریر سے کیسے مطمئن ہو سکتا ہوں۔ نواز شریف کی تقریر بھی بے معنی تھی اور اپوزیشن کا واک آؤٹ بھی فضول تھا۔ حکومت اس مسئلے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتی۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ جلد از جلد چیف جسٹس کے خط میں اٹھائے جانے والے نکات کی روشنی میں پارلیمان کی کمیٹی بنائے اور ٹی او آرز تشکیل دے۔ اگر اس مسئلے کو صرف پارلیمان میں ہی حل کرنا ہے تواسپیکر پارلیمان کو ایک کمیٹی میں بھی تبدیل کر سکتے ہیں اور پھر قواعد کے مطابق وزیرِ اعظم تمام سوالات کے جوابات دینے کے پابند ہوں گے۔ ملک میں اور بھی اہم مسئلے ہیں جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیرستان سے بے دخل ہونے والے افرادکا کوئی نہیں پوچھ رہا، تو اس مسئلے کو حل کریں اور پھر دوسرے مسائل پر توجہ دیں۔‘‘
نواز شریف اپنی عوامی حمایت بڑھانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ آج وہ اپنے دیرینہ اتحادی مولانا فضل الرحمن کے آبائی شہر ڈیرہ اسمعیل خان پہنچے اور ایک بار پھر عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے شہر کے لیے خزانے کے منہ بھی کھول دیے اور اربوں روپے کی ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کر ڈالا۔ میاں صاحب نے وارننگ دی کہ پی ٹی آئی کے پی میں شاید اگلے انتخابات بھی نہ جیت سکے۔
تنقید کا یہ سلسلہ وزیرِ اعظم کی پیر کی تقریر کا تسلسل ہے، جس میں انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر اُن سے زرائع آمدنی کے حوالے سے کئی سوالات پوچھے۔ نواز شریف نے اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا بھی رونا رویا اور کہا کہ مشرف کی حکومت بھی ان کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہ تلاش کر سکی۔ حزب اختلاف نے ان کے خطاب کو زیادہ تر وقت تحمل سے سنا لیکن خطاب کے آخر میں اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ آج حزب اختلاف کے رہنما سر جوڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں اور ممکنہ ٹی اوآرز پر بات چیت کر رہے ہیں۔
حکومت کے اتحادی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکڑ مالک حزبِ اختلاف کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد ٹی او آرز بنائیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پانامہ لیکس ایک قومی مسئلہ ہے۔ پارلیمان کو اس پر جلد ہی ٹی او آرز بنا لینے چاہییں اور اس کے بعد عدلیہ اور متعلقہ اداروں کو اس پر بھر پور تحقیق کرنی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ اس مسئلے پر سنجیدہ ہے اور جیسا کہ نظر بھی آرہا ہے تو اس مسئلے کو جلد حل کیا جا سکتا ہے۔ حزب اختلاف کے پاس 70سوال ہوں یا 70,000 ہوں وہ اسے پارلیمان میں لائے اور ٹی اوآرز کا حصہ بنائے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اگر صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی نے کوئی غیر جمہوری قدم اٹھانے کی کوشش کی تو سیاست دان بھرپور مزاحمت کریں گے اور میرے خیال میں ملکی اور بین الاقوامی حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ کسی غیر جمہوری اقدام کو برداشت کیا جائے لیکن اگر پھر بھی ایسا ہوتا ہے تو ملک کے لیے بہت تباہ کن ہو گا۔‘‘