اربوں انسان حصول آب کی جدوجہد پر مجبور، اقوام متحدہ کی تنبیہ
6 اکتوبر 2021
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 2050ء میں دنیا کے پانچ ارب سے زائد انسان پانی کے حصول کے لیے باقاعدہ جدوجہد پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اس ادارے نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کے تدارک کے لیے ابھی سے کوششیں کریں۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی طرف سے یہ مطالبہ کرہ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے موضوع پر اس عالمی ادارے کی COP26 نامی اس سربراہی کانفرنس سے پہلے کیا گیا ہے، جو برطانیہ کے شہر گلاسگو میں 31 اکتوبر کو شروع ہو کر 12 نومبر تک جاری رہے گی۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کے فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے سربراہ پیٹیری تالاس نے جنیوا میں بتایا کہ عالمی آبادی کے لیے پانی تک رسائی پہلے ہی ایک مسئلہ ہے، جو بتدریج شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
اربوں انسان سالانہ ایک ماہ پانی سے محروم
عالمی موسمیاتی ادارے کے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں قائم ہیڈ کوارٹرز میں ڈبلیو ایم او کے سربراہ نے کہا کہ 2018ء میں دنیا میں 3.6 ارب انسان ایسے تھے، جو ہر سال کم از کم ایک ماہ تک پانی تک مناسب اور کافی رسائی سے محروم رہتے تھے۔
پلاسٹک کی حیرت انگیز گیندیں اور خشک سالی دُور؟
انسان کے پاس بس سوچ ہونی چاہیے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کا شہر لاس اینجلس خشک سالی کے خاتمے کے لیے پلاسٹک کی کروڑوں گیندیں استعمال کر رہا ہے۔ بظاہر یہ محض کوئی کرتب لگتا ہے لیکن معاملہ سنجیدہ ہے اور یہ طریقہ مؤثر بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Gene Blevins via ZUMA Wire
ڈھانپنے کا غیر معمولی طریقہ
پلاسٹک کی یہ گیندیں تعداد میں واقعی بہت زیادہ ہیں، درحقیقت پوری نو کروڑ اور ساٹھ لاکھ۔ اب یہ گیندیں لاس اینجلس شہر کے مرکز سے تقریباً چالیس کلومیٹر کی دوری پر واقع Sylmar آبی ذخیرے میں پھینکی گئیں۔ یہ گیندیں اتنی زیادہ تھیں کہ انہوں نے ستّر ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے آبی ذخیرے کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔
لیکن یہ سارا کام پلک جھپکنے میں مکمل نہیں ہوا بلکہ اس میں کئی مہینے لگ گئے۔ عام طور پر ایسا ہوتا رہا ہے کہ پہاڑوں پر برف پگھلنے سے سال کے اوائل میں لاس اینجلس کے آبی ذخائر میں وافر مقدار میں پانی جمع ہو جاتا تھا۔ اب چونکہ برف کم پڑنے لگی ہے، اس لیے آبی ذخائر بڑی حد تک خالی ہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Gene Blevins via ZUMA Wire
خاص قسم کی گیندیں
لاس اینجلس اب اُن امریکی شہروں میں سے ایسا پہلا شہر بن گیا ہے، جنہوں نے پانی بچانے کے لیے یہ غیر معمولی طریقہ اختیار کیا ہے۔ ان گیندوں کو ’شیڈ بالز‘ یا ’سایہ کرنے والی گیندیں‘ کہا جاتا ہے۔ ہر گیند ایک سیب کے سائز جتنی ہے اور اندر سے خالی ہے۔ یہ گیندیں پانی کو ڈھانپ لیتی ہیں اور یوں اُسے نہ صرف بخارات بن کر اڑ جانے سے بچاتی ہیں بلکہ ناپسندیدہ کیمیائی عوامل کو بھی وقوع پذیر ہونے سے روکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Gene Blevins via ZUMA Wire
دھوپ سے حفاظت
ہوتا یہ ہے کہ پانی میں موجود قدرتی کیمیائی عنصر برومائیڈ مسلسل دھوپ پڑنے سے کینسر کا باعث بننے والے عنصر برومیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ گیندیں جہاں ایک طرف شمسی شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرتی ہیں، وہیں وہ آبی ذخائر کو خشک ہونے سے بچاتی ہیں۔ مزید برآں پانی میں کلورین ملائی جاتی ہے تاکہ بیکٹیریا ختم کیے جا سکیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Gene Blevins via ZUMA Wire
حوصلے اور ہمت والی سوچ
جب آخری بیس ہزار گینیں پانی میں ڈالی گئیں تو اس موقع پر ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی، جس میں لاس اینجلس کے میئر ایرک گارسیٹی بنفسِ نفیس موجود تھے۔ اُنہوں نے اس موقع پر کہا:’’کیلیفورنیا کی تاریخ کی اتنی بڑی خشک سالی کے ہوتے ہوئے پینے کے صاف پانی کی حفاظت کے لیے جرأت مندانہ خیالات اور تصورات کی ضرورت ہے۔‘‘
اتنی زیادہ گینیں پانی میں ڈالنے کے اس بڑے منصوبے پر 34.5 ملین ڈالر لاگت آئی ہے لیکن یہ گیندیں تقریباً دَس سال تک کام آ سکتی ہیں۔ گارسیٹی کا اندازہ ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے تین سو ملین ڈالر کی بچت کی جا سکی ہے۔ دریں اثناء لاس اینجلس اپنے پانی کے استعمال میں بھی تیرہ فیصد تک کی کمی کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
پیٹیری تالاس نے عالمی موسمیاتی ادارے کی سال 2021ء کے لیے پانی سے متعلق نئی رپورٹ کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران زمین پر، اس کی سطح سے کچھ نیچے، بہت زیادہ گہرائی میں اور برف یا گلیشیئرز کی صورت میں، پانی کی سطح میں ایک سینٹی میٹر سالانہ کی شرح سے کمی ہوئی ہے۔
سب سے زیادہ نقصان انٹارکٹکا اور گرین لینڈ میں ریکارڈ کیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی کرہ ارض کے گنجان آبادی والے زیریں یا نشیبی علاقوں میں پانی کے ان ذخائر میں بھی کمی ہوئی، جن پر انسانی آبادی روایتی طور پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
دنیا کے چھ شہروں کے 2050ء تک مستقل زیر آب آ جانے کا خطرہ
بڑھتے ہوئے زمینی درجہ حرارت کے باعث 2050ء تک دنیا کے چند بڑے ساحلی شہر مسلسل زیر آب آ جانے کا خطرہ ہے۔ نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو شدید سیلاب پہلے ایک صدی میں ایک بار آتے تھے، کچھ شہروں میں آئندہ ہر سال آنے لگیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Toedt
شنگھائی (چین)
چین میں 93 ملین انسان ایسے زمینی علاقوں میں رہتے ہیں، جو 2050ء تک زیر آب آ جائیں گے۔ امریکی تحقیقی تنظیم کلائمیٹ سینٹرل کی ریسرچ کے مطابق اس کا سبب بڑھتا ہوا زمینی درجہ حرارت ہو گا اور ساحلی علاقوں میں سالانہ سیلابوں کی بڑھتی ہوئی اوسط بھی۔ چین کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر شنگھائی بھی سمندری سیلابوں کے خطرے سے دوچار ہے کیونکہ وہاں ایسے سیلابوں سے تحفظ کے لیے کوئی ساحلی دفاعی نظام موجود ہی نہیں۔
تصویر: Reuters/A. Song
ہنوئے (ویت نام)
ویت نام میں 31 ملین سے زائد شہری یا ملکی آبادی کا تقریباﹰ ایک چوتھائی حصہ اس وقت ایسی زمین پر آباد ہے، جس کے 2050ء تک ہر سال کم از کم ایک مرتبہ شدید حد تک زیر آب آ جانے کا خطرہ ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ تب تک ہر سال آنے والے سمندری سیلابوں سے خاص طور پر میکانگ ڈیلٹا کے بہت گنجان آباد خطے اور ویت نام کے دارالحکومت ہنوئے کے ارد گرد شمالی ساحلی خطے میں خاص طور پر شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/DUMONT Bildarchiv
کولکتہ (بھارت)
بھارت میں 2050ء تک جتنی زمین بڑھتی ہوئی سطح سمندر کی وجہ سے ہر سال زیر آب آنے لگے گی، اس خطہ زمین پر تقریباﹰ 36 ملین انسان آباد ہیں۔ ریاست مغربی بنگال کا شہر کولکتہ بالخصوص خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ کوئی سمندری سیلاب کسی ساحلی شہر کو کس حد تک زیر آب لا سکتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہاں ساحلی علاقے میں آبی ریلوں سے حفاظت کے انتظامات کیسے ہیں۔
تصویر: DW/S. Bhowmick
بنکاک (تھائی لینڈ)
تھائی لینڈ کے 10 فیصد سے زیادہ باشندے اس وقت ایسے زمینی علاقوں میں رہتے ہیں، جو 2050ء تک باقاعدگی سے سیلابوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔ تھائی دارالحکومت بنکاک کی یہ تصویر 2011ء میں آنے والے سیلاب کی ہے۔ یہ شہر سطح سمندر سے صرف ڈیڑھ میٹر بلند ہونے کی وجہ سے خاص طور پر خطرے میں ہے۔ ماہرین کے مطابق تھائی لینڈ کی 94 فیصد آبادی 2100ء تک سیلابوں کی وجہ سے بے گھر یا نقل مکانی پر مجبور ہو سکتی ہے۔
تصویر: AP
بصرہ (عراق)
کلائمیٹ سینٹرل کے ماڈلز کے مطابق عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر بصرہ بھی ساحلی سیلابوں کا شکار ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے اور 2050ء تک زیادہ تر پانی میں ڈوب سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے اثرات عراق کی قومی سرحدوں سے باہر تک محسوس کیے جائیں گے کیونکہ سطح سمندر میں اضافے کے نتیجے میں نقل مکانی سے نئے علاقائی اور سیاسی تنازعات پیدا ہوں گے اور جو تنازعات پہلے سے موجود ہوں گے، ان میں شدت آ جائے گی۔
تصویر: Hussein Faleh/AFP/Getty Images
اسکندریہ (مصر)
ساحلی علاقوں میں آئندہ سیلاب ثقافتی میراث کی تباہی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ مصر کے شہر اسکندریہ کی بنیاد دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے اسکندر اعظم نے رکھی تھی، مگر بحیرہ روم کے کنارے واقع پانچ ملین کی آبادی والے اس شہر کا بڑا حصہ نشیبی ہے۔ سیلابوں کی روک تھام کے انتظامات اور شہری آبادی کی ممکنہ نئی آباد کاری کے قبل از وقت تیار کردہ منصبوں کے بغیر اس شہر کا زیادہ تر حصہ 2100ء تک زیر آب آ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Toedt
6 تصاویر1 | 6
زمین پر صرف 0.5 فیصد پانی قابل استعمال
اقوام متحدہ کے اس ادارے کے مطابق اس امر کا شدید خدشہ ہے کہ زمین پر انسانی آبادی میں سے پانچ ارب سے زائد انسانوں تک کو سن 2050ء تک پانی کے حصول کے لیے مجبوراﹰ ایسی جدوجہد کرنا پڑ سکتی ہے، جس سے فرار شاید ممکن ہی نہ ہو۔
یہ صورت حال اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ کرہ ارض پر جتنا بھی پانی ہے، اس میں سے صرف 0.5 فیصد پانی ہی ایسا ہے، جسے انسانی آبادی استعمال کر سکتی ہے اور جسے پینے کے قابل تازہ پانی کہا جاتا ہے۔
م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
دنیا کی انتہائی دلآویز آبشاریں
پانی ہمیشہ سے افراد کو لبھاتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب پہاڑوں کی بلندی سے جھرنے شور مچاتے ہوئے زمین پر گرتے ہیں۔ دنیا کی دس خوبصورت آبشاروں کی تفصیلات درج ذیل ہیں:۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Matzka
آبشار وکٹوریہ
براعظم افریقہ کی یہ آبشار عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے اور دو ملکوں زیمبیا اور زمبابوے میں منقسم ہے۔ یہ دنیا کی سب سے چوڑی آبشار ہے۔ بارشوں میں کمی کی وجہ سے دریائے زیمبزی میں پانی کم ہوتا جا رہا ہے، جس کا اثراس آبشار پر بھی پڑ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/F. Scholz
نیاگرا فال
نیاگرا آبشار امریکا اور کینیڈا کی سرحد پر ہے اور اس کا قدیمی نام ’چنگاڑتا پانی‘ ہے۔ بارشیں زیادہ ہوں تو اس آبشار سے شور مچاتے پانی کی شدت بھی انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا نظارہ بھی حقیقتاً شاندار ہے۔ نیاگرا فال میں تین آبشاریں شامل ہیں، ان کے نام امریکی فال، برائیڈل ویل فال اور ہارس شو فال ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/W. Sbampato
ایگواژُو آبشار
ایک سرحدی جھرنے سے پھوٹنے والا پانی کئی شاخوں میں بلندی سے زمین کی جانب گرتا ہے اور یہ ایگوا ژُو آبشاروں کا سلسلہ ہے۔ یہ برازیل اور ارجنٹائن کے درمیان ہے۔ یہاں پونے تین سو چھوٹی بڑی آبشاریں سات سو میٹر لمبی ایک آبشار میں مل جاتی ہیں۔ یہ بھی عالمی ورثے میں شامل ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے پانی کے قریب تک پل بنائے گئے ہیں تا کہ وہ آبشار کا دلفریب نظارہ کر سکیں۔
چین اور وہیتنام کی سرحد پر واقع یہ آبشار بھی قدرت کا حسین نظارہ ہے۔ یہ دریائے کوائے سون پر واقع ہے۔ اس کی چوڑائی تین سو میٹر ہے۔ مئی سے ستمبر تک اس دریا میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے پانی بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس باعث آبشار کی رونق بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے ماحول کو خواب ناک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/CPA Media Co. Ltd/D. Henley
اینجل فال
وینزویلا کی آبشار اینجل دنیا کی سب سے بلند واٹر فال ہے۔ یہ آؤیان تیپُوئی پہاڑ سے گرتی ہے۔ اس میں دریائے ریو چورُون کا پانی انتہائی بلندی سے نیچے کی جانب گرتا ہے۔ بلندی سے بظاہر یہ بارش کے قطروں جیسی ہے لیکن پہاڑی درے میں یہ ایک شوریدہ دریا کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس آبشار تک پہنچنا خاصا دشوار ہے۔ اینجل فال کو دیکھنا یا رسائی صرف کشتی سے یا ہوائی جہاز سے ممکن ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/Barbier
گلفاس
یورپی ملک آئس لینڈ آگ اور برف کا دیس ہے۔ جہاں برف ہوتی ہے وہاں پانی کی بہتات ہے۔ انہی میں گلفاس آبشار بھی ہے۔ یہ دو آبی گزرگاہوں سے انتہائی گہرائی میں گرتی ہے۔ یہ نظارہ دیکھنے کے راستے گولڈن سرکل پر واقع ہے۔ آبشار دیکھنے کے لیے ایک راستہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin/J. Knappe
سلیا لینڈ فاس
آئس لینڈ میں ہزاروں چھوٹی بڑی آبشاریں ہیں۔ جنوبی آئس لینڈ میں واقع سلیا لینڈ آبشار سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ یہ دریائے سلیالنڈسا پر واقع ہے۔ اس کی سیاحت کرنے والے خوبصورت قدرتی منظر سے بھی لطف انداوز ہوتے ہیں۔ شام کے وقت آبشار سے منسلک پانی کے بڑے ذخیرے کی رنگت انتہائی حسین ہو کر رہ جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/PIXSELL/F. Brala
وضود آبشار
جمہوریہ المغرب (موراکو یا مراکش) کے الطاس پہاڑوں میں وضود آبشار واقع ہے۔ یہ مراکو کے صوبے ماراکش میں واقع ہے۔ الطاس پہاڑی سلسلے میں سے پھوٹنے والے کئی جھرنے وضود آبشار کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کا پسندیدہ مقام قرار دیا جاتا ہے۔ ایک کچے پہاڑی راستے سے نیچے پہنچ کر آبشار تک پہنچا جاتا ہے۔ انہی پہاڑی راستوں میں شرمیلے بندر باربیری کی ایک قسم بھی پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. F. Postl
پلِٹ وِس جھیل، نیشنل پارک
پلِٹ وِس جھیل کروشیا کے نیشنل پارک کا حصہ ہے اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ سولہ جھیلیں مختلف آبشاروں کے سلسلے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ کروشیا میں یہ سیاحوں کا ایک مقبول مقام ہے۔ ان جھیلوں اور آبشاروں کا نظارہ ہائیکنگ ٹریک کے علاوہ کشتی سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/P. Williams
رائن فال
سوئٹزرلینڈ کے مقام شیف ہاؤزن میں دریائے رائن تقریباً پچیس میٹر کی بلندی سے پہاڑی راستے سے اپنے بالائی کھلی وادی میں گرتا ہے۔ یہ آبشار انتہائی حسین منظر کی حامل ہے۔ یہ مقام یورپ کی تازہ پانی کی بڑی جھیل کونسٹانس سے محض چند کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ اس کے نظارے کے لیے کشتیاں سیاحوں کو آبشار کے قریب تک لے جاتی ہیں جہاں اُن پر پھوار گرتی ہے۔