1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانچ سالہ بچی سے انسانیت سوز سلوک

13 نومبر 2020

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں زیادتی کا نشانہ بننے والی پانچ سالہ علیشا کو علاج کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے لاڑکانہ سے کراچی کے ایک نجی اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

تصویر: Getty Images

چند دن قبل سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ماں کا انٹرویو تیزی سے وائرل ہوا، جس میں وہ پولیس کے ہمراہ اپنی پانچ سال کی بیٹی کو لے کر بیٹھی ہے اور اپنی بچی سے پوچھتی ہے کہ اسے کیا ہوا ہے۔ گم سم حالت میں کھڑی بچی پہلے کچھ بتانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اپنی بات سمجھا نہیں پاتی تو پھر اپنے کپڑے اٹھا کر اپنا حال دکھاتی ہے، جس کے بعد ماں کی دلخراش چیخ سنائی دیتی ہے تو دوسری طرف اس کی حالت وہاں موجود پولیس اہلکاروں کی آنکھوں کو بھی پُرنم کر دیتی ہے۔

یہ پانچ سالہ بچی علیشا ہے، جسے اس کی والدہ کے ہمراہ نوکری کی امید دلا کر کراچی سے کمشور لایا گیا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کے حوالے سے علیشا کی والدہ تبسم مغل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی ملاقات کراچی کے ایک ہسپتال میں موجود شخص سے ہوئی تھی جس نے انہیں نوکری کی امید دلائی تھی: ''اس شخص نے خود کو پولیس اہلکار بتایا۔ اس نے کہا کہ وہ میری طرح کی غریب عورتوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو گھر اور ملازمت فراہم کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ کشمور میں اس کے پاس ملازمت کا ایک موقع ہے جہاں خواتین کے پرس کی جانچ پڑتال کرنے کا کام ہے جس کے مجھے چالیس ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی۔ میں نے اس کو بتایا کہ میری بچی بھی میرے ساتھ ہوتی ہے تو اس شخص نے کہا کہ وہاں بچوں کی دیکھ بھال کا انتظام بھی ہے۔ اسی لیے میں اسی دن اپنی بیٹی کو لے کر کشمور پہنچی جہاں سے مجھے ایک ویران علاقے میں موجود گھر لے گئے اور بتایا کہ مجھے 30 ہزار میں فروخت کر دیا گیا ہے۔ وہاں موجود تین افراد مجھے میری بچی سے الگ کر کے تین دن اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ پھر ایک دن کہا کہ کراچی واپس جاؤ اور کسی اور لڑکی کا انتظام کرو۔ دوسری لڑکی آنے تک تماری بچی ہمارے پاس رہے گی۔ "

تبسم بتاتی ہیں کہ انہوں نے واپس کراچی آکر پولیس سے رابطہ کیا جنہوں نے کہا کہ صورتحال بہت سنجیدہ ہے۔ واپس کمشور جاؤ اور وہاں پولیس سے رابطہ کرو: ''میں اسی دن کمشور آئی اور پولیس سے مدد مانگی۔ یہاں اے ایس آئی محمد بخش نے اپنی بیٹی سے اغواء کاروں کی بات کروا کر ایک آپریشن کیا جس میں ایک ملزم گرفتار ہوا اور اس نے اس مکان کا پتہ بتایا جہاں میری بچی کو رکھا گیا تھا۔ وہاں پولیس کو میری بچی جس حالت میں ملی میں تو جیتے جی مر گئی ہوں۔"

ایس ایچ او کشمور اکبر چنا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس جرم میں ملوث تین میں سے ایک مجرم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس سے تفتیش کی جا رہی ہے، "مقدمے میں نامزد مزید دو ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے ہیں لیکن اطلاعات کے مطابق ملزمان سندھ سے صوبہ بلوچستان کی طرف فرار ہو گئے ہیں، جن کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔" پولیس کے مطابق ملزمان کے ڈی این اے سیمپل ٹیسٹ کے لیے بجھوائے جا چکے ہیں جبکہ علیشا کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔

بنگلہ دیش نے ریپ کی سزا موت مقرر کر دی

ٹوفنگرز ٹیسٹ کی ممانعت: طبی ماہرین اور سول سوسائٹی کا خیرمقدم

علیشا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد ایک بار پھر بچوں کے تحفظ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سندھ چائلڈ پرٹیکشن اتھارٹی کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس کے مطابق ملک میں بچوں کے ساتھ ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال کے ابتدائی آٹھ مہینوں میں بچوں کے اغواء اور زیادتی کے دوگنا کیسز سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس برس اگست کے مہینے تک 1007 کیس درج کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ واقعات کراچی میں سامنے آئے اور ان کی تعداد 737 ہے۔ کراچی کے بعد دادو دوسرا شہر ہے، جہاں سب سے زیادہ یعنیِ 51 کیس درج ہوئے جبکہ خیرپور تیسرا شہر رہا جہاں سب سے زیادہ یعنیِ 44 کیس درج ہوئے۔

دوسری جانب بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' نے بھی اپنی ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق ملک بھر میں روزآنہ اوسطً آٹھ بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہرچھ ماہ پر جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 497 واقعات ہوئے۔ ان میں سے 57 فیصد واقعات پنجاب، 32 فیصد سندھ جبکہ 6 فیصد خیبرپختونخواہ میں رونما ہوئے۔ ساحل کے مطابق جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں 53 فیصد بچیاں جبکہ 47 فیصد بچے ہیں۔

د بچے ہیں۔

بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں قانون کی موجودگی کے باوجود بچوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات کی روک تھام میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آرہے ہیں، جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں