ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق خدشہ ہے کہ گزشتہ ہفتے پانچ سو تک افریقی تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔ اگر تصدیق ہو گئی تو یہ یورپ میں مہاجرین کے بحران کے دوران اب تک کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک ہو گا۔
اشتہار
خبر رساں اداے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حادثے میں بچ جانے والے کچھ مہاجرین نے دل دہلا دینے والے حقائق بیان کیے ہیں۔
سولہ اپریل کو ایک تجارتی بحری جہاز کے عملے نے کچھ مہاجرین کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا تھا۔ اتفاق سے یہ تجارتی بحری جہاز اُس وقت بحیرہ روم میں لیبیا اور اٹلی کے درمیان سفر پر تھا، جب مہاجرین کو ایک بڑی کشتی کو یہ حادثہ پیش آیا تھا۔
یو این ایچ سی آر کے ایک تازہ بیان کے مطابق، ’’بچ جانے والے مہاجرین نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ سو تا دو سو افراد تک کے اس گروپ کا حصہ تھے، جو تقریباﹰ ایک ہفتہ قبل لیبیا کے ساحلی علاقے طبرق سے ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ہو کر اٹلی کی طرف روانہ ہوئے تھے۔‘‘
اس بیان میں ادارہ برائے مہاجرین نے مزید کہا، ’’کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد انسانوں کے اسمگلروں نے اس چھوٹی سی کشتی میں سوار افراد کو ایک دوسری بڑی کشتی میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ اس بڑی کشتی میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ اور سینکڑوں کی تعداد میں افراد سوار تھے۔ تب وہ بڑی کشتی اچانک ڈوب گئی۔‘‘
اندازہ ہے کہ چھوٹی کشتی میں سوار افراد کم ازکم تین دن تک سمندر کی لہروں کے سہارے پر اکیلے ہی رہے، جس کے بعد فلپائن کے ایک مرچنٹ شپ نے اس کشتی کو دیکھا اور ان افراد کی مدد کی۔ بتایا گیا ہے کہ کم ازکم اکتالیس افراد کو بچا لیا گیا، جن میں 37 مرد، تین خواتین اور ایک تین سالہ بچہ بھی شامل ہے۔
اس حادثے میں زندہ بچ جانے والوں میں تئیس صومالی، گیارہ ایتھوپیائی، چھ مصری اور ایک سوڈانی شہری شامل ہیں۔ ایک صومالی مہاجر نے بتایا کہ اس حادثے میں اس کی اہلیہ اور ایک بچہ سمندر برد ہو گئے۔‘
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
زندہ بچ جانے والے ایک اور شخص کے بھائی نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کو بتایا کہ یہ کشتی سات اپریل کو مصری بندرگاہی شہر اسکندریہ سے چلی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس حادثے میں اس کے تین رشتہ دار سمندر میں ڈوب گئے۔
گزشتہ برس اپریل میں بھی بحیرہ روم میں ایک ایسا ہی حادثہ رونما ہوا تھا، جس میں 740 افراد کے ہلاک ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ حادثہ لیبیا کی سمندری حدود میں پیش آیا تھا۔ ستمبر 2014ء میں مالٹا کے سمندری پانیوں میں پیش آنے والے ایک حادثے میں بھی پانچ سو تک مہاجرین ہلاک ہو گئے تھے۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس یورپ پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد ایک ملین سے زائد بنتی ہے جبکہ رواں برس کے دوران بھی اب تک ایک لاکھ 70 ہزار مہاجرین یورپ پہنچ چکے ہیں۔
گزشتہ برس یورپ پہنچنے کی کوشش میں 3700 سے زائد افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے۔ رواں برس یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی اب تک کی تعداد 761 بنتی ہے۔