پانچ مسلم ممالک سے آنے والوں پر سفری پابندیاں، ’ٹرمپ کی فتح‘
27 جون 2018
امریکی سپریم کورٹ نے پانچ مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر صدر ٹرمپ کی عائد کردہ سفری پابندیوں کو درست قرار دے دیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ’بڑی قانونی فتح‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی سپریم کورٹ نے منگل چھبیس جون کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو درست قرار دے دیا، جس کے تحت انہوں نے اکثریتی طور پر مسلم آبادی والے پانچ ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ سفری پابندیاں، جنہیں مختصراﹰ ’ٹرمپ ٹریول بین‘ بھی کہا جاتا ہے، صدارتی منصب سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد لگائی تھیں اور اس فیصلے کے بعد شروع ہونے والی طویل قانونی جنگ ایک خاصا صبر آزما مرحلہ بن چکی تھی۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
اب اس مقدمے میں امریکی سپریم کورٹ نے اپنا جو فیصلہ سنایا ہے، اسے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ’بڑی عدالتی فتح‘ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس مقدمے میں امریکی سپریم کورٹ کے نو ججوں نے اپنا فیصلہ متفقہ کے بجائے اکثریتی رائے سے سنایا۔
نو میں سے پانچ ججوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس سلسلے میں اپنے ابتدائی فیصلے پر عمل درآمد کے بعد ملکی عدلیہ کے حکم پر اس میں جو ترامیم کی تھیں، ان کے بعد ہی وہ سفری پابندیاں متعارف کرائی گئی تھیں، جو ابھی تک نافذالعمل ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت کے مطابق امریکا کے قومی سلامتی سے متعلق خدشات کی وجہ سے لگائی گئی یہ سفری پابندیاں اپنی موجودہ شکل میں جائز ہیں اور امریکی آئین یا قوانین کے تقاضوں سے متصادم نہیں ہیں۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ یہ پابندیاں اپنی موجودہ شکل میں گزشتہ برس دسمبر سے پوری طرح نافذ ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ممکن ہو سکا تھا کہ تب سپریم کورٹ نے ملک کی تمام ذیلی عدالتوں کو اس سلسلے میں فیصلے کرنے سے روک دیا تھا۔ اس کی ضرورت اس لیے پڑی تھی کہ تب کئی ریاستوں میں ذیلی عدالتوں نے اپنے اپنے طور پر اس متنازعہ قانون کے متعدد حصوں پر عمل درآمد معطل کر دینے کے حکم سنائے تھے اور ملکی سطح پر سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تب تک کوئی فیصلہ نہیں سنایا تھا۔
اس پالیسی کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم اکثریتی آبادی والے پانچ ممالک، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے علاوہ اکثریتی طور پر غیر مسلم آبادی والے دو دیگر ممالک بھی انہی پابندیوں سے متاثر ہوئے تھے، جو شمالی کوریا اور وینزویلا تھے۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Barria
9 تصاویر1 | 9
ان سات ممالک میں سے پانچ مسلم ریاستوں کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے خلاف اس وجہ سے خاص طور پر احتجاج دیکھنے میں آیا تھا کہ تب مسلم دنیا میں بہت سے حلقوں نے اسے ٹرمپ کا ’مسلم مخالف‘ اقدام قرار دیا تھا۔ دوسری طرف خود ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ پانچ ممالک ایسے ہیں، جو بدامنی، انتہا پسندی، خانہ جنگی یا دہشت گردی سے خاص طور پر متاثر تھے، اور وہاں سے آنے والوں کے باعث امریکا کے لیے اس کی قومی سلامتی کے خطرات پیدا ہو چکے تھے۔
صدر ٹرمپ کی عائد کردہ ان سفری پابندیوں کا جائز قرار دینے والے امریکی سپریم کورٹ کے اس تازہ لیکن حتمی فیصلے پر امریکا میں تارکین وطن، بہت سے قانونی حلقوں اور خاص طور پر متاثرہ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے واضح طور پر اپنی ناامیدی کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے کہ ان پابندیوں کی مدد سے نہ صرف ان ممالک کے شہریوں کو امریکا آنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ بالواسطہ طور پر امریکا سے ایسے تارکین وطن کے ان کے آبائی ممالک کے سفر کا راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ اگر ان ممالک میں سے کسی کا کوئی شہری امریکا سے اپنے آبائی وطن کا سفر کرتا ہے، تو واپسی پر امریکی حکام اسے بھی امریکا میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔
م م / ش ح / اے پی
امریکی صدر کے دور صدارت کا پہلا سال، چند یادگار لمحات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کا ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ پہلی بار صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے کئی ایسے متنازعہ بیانات اور فیصلے سامنے آئے جو بلا شبہ یادگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/E. Vucci
مسلم ممالک کے خلاف امتیازی سلوک اور عدالتی کارروائیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا منصب سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اچانک سات مسلم ممالک کے شہریوں کا 90 روز کے لیے جبکہ تمام ممالک سے مہاجرت کرنے والوں پر 120 دن کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا، جسے بعد میں ملکی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Jones
وفاقی تحقيقاتی ادارے کے سربراہ کی اچانک معطلی
نو مئی کو اچانک امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ جیمز کومی اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا ٹرمپ کی الیکشن مہم میں ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کے لیے روس کی مدد لی گئی تھی یا نہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Somodevilla
ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے اخراج کا فیصلہ
یکم جون 2017 کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکا ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے یعنی پیرس معاہدےسے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ تاہم اس ماہ ان کا کہنا ہے کہ امریکا چند من مانی شرائط پوری کيے جانے کی صورت میں واپس اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی
گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی امریکی دھمکی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات دوبارہ شدید کشیدہ ہوگئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini
ٹیکس اصلاحات کا نفاذ
امریکی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کٹوتی کا اصلاحاتی بل بھی صدر ٹڑمپ کے دور صدارت میں نافذ کيا گيا۔ یہ ٹیکس کے نظام میں 1986ء کے بعد کی جانے والی یہ سب سے بڑی اصلاحات تھیں۔