پانی، بجلی اور خوراک کی فراہمی معطل، مہاجرین پریشان
عاطف بلوچ، روئٹرز
1 نومبر 2017
پاپوا نیو گنی میں موجود مہاجرین نے مانوس کے حراستی کیمپ کو خیر باد کہنے سے انکار کر دیا ہے۔ حکام نے اس کیمپ میں پانی، بجلی اور کھانے کی سپلائی بند کر دی ہے تاہم مہاجرین بضد ہیں کہ وہ اس کیمپ کو خالی نہیں کریں گے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاپوا نیو گنی سے بدھ کے دن ملنے والی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس جزیرے پر قائم مہاجرین کے حراستی مرکز میں موجود افراد بضد ہیں کہ وہ اس حراستی مرکز کو خیر باد نہیں کہیں گے۔ پاپوا نیو گنی کے مانوس جزیرے پر قائم اس حراستی مرکز کا انتظام آسٹریلوی حکومت کے پاس ہے۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
کينبرا حکومت ماضی میں ایسے افراد کو اس کیمپ یا ناورو میں واقع ایک اور کیمپ میں منتقل کرتی رہی ہے، جو سمندری راستے سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش میں ہوتے تھے۔ تاہم انسانی حقوق کے اداروں کی طرف ان کیمپوں کی ابتر صورتحال پر شدید تنقید کے بعد اب آسٹریلوی حکومت انہيں بند کرنا چاہتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق مانوس کے مہاجر کیمپ میں کم ازکم چھ سو مہاجرین قید ہیں، جن کی کوشش ہے کہ اس کیمپ کو بند کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے۔ انہیں خوف ہے کہ اگر یہ کیمپ بند ہو گیا تو انہیں اس جزیرے کے مقامی لوگوں سے پرتشدد سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یکم نومبر بروز بدھ اس کیمپ کے کچھ مردوں نے اُس بس پر سوار ہونے سے انکار کر دیا، جس نے انہیں ایک عارضی سینٹر لے جانا تھا۔
اس کیمپ کے تین مہاجرین نے روئٹرز کو بتایا کہ کیمپ کو خالی نہ کرنے پر حکام نے بجلی کی سپلائی منقطع کر دی ہے جبکہ پانی کے کنکیشن بھی کاٹ دیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کھانے کو بھی کچھ نہیں مل رہا اور اس صورتحال میں اس کیمپ کے رہائشی بہت زیادہ پریشان ہیں۔
اس صورتحال میں پاپوا نیو گنی کے وکلاء کی ایک ٹیم نے فوری طور پر ملکی سپریم کورٹ میں ان مہاجرین کی ایماء پر ایک درخواست دائر کر دی ہے۔ ان وکلاء کا اصرار ہے کہ اس کیمپ کو بند نہیں ہونا چاہیے اور بنیادی سہولیات کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ مقامی ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ بدھ کے دن ہی اس بارے میں اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔
دوسری طرف نگران آسٹریلوی وزیر اعظم جولی بشپ نے اس کیمپ کے باسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ نئے بنائے گئے عارضی کیمپوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ وہ فوری طور پر بنیادی اشیائے ضرورت حاصل کر سکیں۔ آسٹریلوی حکومت کے مطابق ان مہاجرین کو نئے شیلٹر سینٹرز میں تمام تر سہولیات میسر ہوں گی اور انہیں بارہ ماہ کی سکیورٹی بھی دی جائے گی کہ انہیں یہاں سے نہیں نکالا جائے گا۔
اس دوران آسٹریلوی حکومت امریکا کے ساتھ مل کر مہاجرین کی درخواستوں پر کارروائی کرے گی تاکہ ان مہاجرین کو امریکا منتقل کرنے کے حوالے سے ضروری قانونی تقاضے پورے ہو سکیں۔ اگر یوں ہوتا ہے تو کينبرا حکومت مانوس اور ناورو کے جزائر پر موجود چودہ سو مہاجرین کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گی۔ ایسے مہاجرین جن کو امریکا بھی مسترد کر دے گا، ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پاپوا نیو گنی میں ہی زندگی گزاریں گے اور انہیں آسٹریلیا جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔