1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانی زندگی ہے، اس کی قدر کیجیے

21 مارچ 2021

ہر برس 22 مارچ کودنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سن 2021 کے واٹر ڈے کا تھیم ہے "پانی کی قدر کریں" تا کہ عام لوگوں میں شعور بیدار کیا جاسکے کہ صاف پانی کو بے دریغ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

Pakistan Trinkwasser vom Tankwagen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

 پاکستان کا شمار جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے،  اس سے پاکستان  کوقریب 18.9فیصد جی ڈی پی حاصل ہوتا ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 68 فیصد دیہات میں آباد ہے جن کا ذریعۂ روزگار، کھیتی باڑی، تجارت یا گلہ بانی ہے جو کسی نہ کسی طور زراعت کا حصہ ہیں۔ مگر بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں زراعت سے منسلک افراد کو بڑے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے جس میں صف ِ اول  پانی کی ذخائر کی کمی ہے۔

بائیس مارچ: ورلڈ واٹر ڈے

 پانی کی ذخائر میں کمی کیوں ہورہی ہے؟

پاکستان میٹرو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ  سے وابستہ زبیر احمد صدیقی نے ڈ ی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ " پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ میں بھی جنوری اور فروری میں بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ ستمبر سن 2020 میں بننے والا کمزور لا نینا سسٹم تھا جو امریکہ کی مغربی ٹروپیکل  ساحلی پٹی  پر سمندری پانی کے ٹھنڈے ہونے کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ یہ سسٹم دسمبر سن 2020 تک مضبوط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں  موسم سرما کے دوران معمول سے انتہائی کم یا بالکل ہی بارش نہیں ہوئی۔ یہ ایک بڑی موسمیاتی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے اور ایک پریشان کن صورتحال بھی ہے، کیونکہ  بارشوں اور برف باری کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح بہت کم ہو گئی ہے"۔

دریاؤں میں پانی کی کمی سے ایکو سسٹم کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے، دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن بھی بقا کے خطرے سے دوچار ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

  موسم گرما میں سمندر کے پانیوں کا درجۂ بڑھنے سے  بحیرۂ عرب اور  خلیج بنگال میں سائیکلون اور سمندری طوفانوں کی تعداد میں پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔ جس کا مشاہدہ  اگست سن 2020 میں  کراچی و سندھ کے دیگر علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں کی صورت  میں دیکھا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان  شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے جس سے بارشوں کا نظام براہِ راست متاثر ہوا ہے۔

سمندری پانی، پینے کے قابل کیسے بنایا جاتا ہے

 پانی کے بحران کی  دیگر وجوہات کیا ہیں؟ 

سن 2017 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی جانب سے ایک انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ اگر پانی کے ضیاع کو روکا  نہیں گیا تو  2025 تک ملک میں پانی کی شدید قلت ہو سکتی ہے۔  فی الوقت ملک کے 80 فیصد علاقوں کو پینے کا جو پانی دستیاب ہے وہ مضر صحت ہے اور متعددد وبائی امراض کا سبب بن رہا ہے۔

بارشوں اور برف باری کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح بہت کم ہو گئی ہےتصویر: Imago Images/Zuma

پرائم منسٹر ٹاسک فورس  فار کلائی میٹ چینج کے سابق رکن اور ڈائریکٹر آف پاکستان واٹر پاٹنر شپ ڈاکٹر پرویز عامر نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا  کہ" کہا جاتا ہے کہ قیام ِ پاکستان کے وقت ملک  میں تقریبا  5 ہزار  کیوبک میٹر پانی کے ذخائر تھے جو اب گھٹ کر محض ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گئے ہیں۔ اس کمی کی بڑی وجہ ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ضروریات ِ زندگی کے لئے صاف پانی کا بے دریغ استعمال ہے،  جبکہ حکومتوں کی جانب سے بھی پانی کے ذخائر کی حفاظت اور فراہمی کے نظام میں بڑے نقائص ہیں۔

اسرائیلی فرم کا غزہ پٹی میں ہوا سے پینے کا صاف پانی نچوڑنے کا منصوبہ

کون سے اقدامات نا گزیر ہیں؟

ڈاکٹر پرویزعامر کا کہنا ہے کہ" ملک کے بیشتر علاقوں میں گنا اور کپاس کاشت کی جاتی ہے جو بہت زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلیں ہیں۔ زمینداروں اور  کسانوں کی اس طرف توجہ نہیں دلائی  گئی کہ وہ ایسی فصلیں کاشت کریں جن میں پانی کی کھپت کم ہو۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں درخت لگانے کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ  چاروں صوبوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے اپنے صدیوں پرانے ایکو لوجیکل سسٹم میں بگاڑ خود پیدا کیا ہے۔ اس میں ساحلی علاقوں میں مینگروز کی کٹا ئی سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ جس کے اثرات کبھی بارشوں کی قلت اور کبھی طوفانوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں"۔

ڈاکٹر  پرویز  کے مطابق  " صرف مخصوص علاقوں میں سونامی ٹری مہم کے بجائے اگر  دیگر علاقوں میں بھی تھوڑے تھوڑے درخت اگائے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے"۔

دنیا کے کئی ممالک میں صاف پینے کے پانی کی شدید قلت ہےتصویر: Rijasolo/AFP

 "ڈے زیرو "جیسی مہم کی ضرورت ہے!

سن 2010 میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی انتظامیہ  نے " ڈے زیرو" کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا کیونکہ شہر میں پانی کی شدید  قلت ہو چکی تھی اور ماہرین  نے وارننگ  جاری کی تھی   کہ  صرف تین ماہ میں شہر  سے پانی ناپید ہو جائے گا۔ اس کڑی صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتظامیہ نے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی مہم کا آغاز کیا کہ روز مرہ استعمال ہونے والے پانی کی کھپت کو اگر ہر گھرانہ آدھا  کردے تو صورتحال  پر قابو پا یا جا سکتا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ اسٹریٹیجی کامیاب بھی رہی۔

 پاکستان میں بھی اگر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے " پانی  کی قدر کیجیے" مہم کا آغاز کیا جائے اور روز مرہ سے لے کر صنعت و زراعت تک پانی کے استعمال  کو کم کیا جائے تو مستقبل کے بڑے بحران سے بچا جا سکتا ہے۔ 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں