پانی زندگی ہے، اس کی قدر کیجیے
21 مارچ 2021پاکستان کا شمار جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے، اس سے پاکستان کوقریب 18.9فیصد جی ڈی پی حاصل ہوتا ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 68 فیصد دیہات میں آباد ہے جن کا ذریعۂ روزگار، کھیتی باڑی، تجارت یا گلہ بانی ہے جو کسی نہ کسی طور زراعت کا حصہ ہیں۔ مگر بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں زراعت سے منسلک افراد کو بڑے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے جس میں صف ِ اول پانی کی ذخائر کی کمی ہے۔
پانی کی ذخائر میں کمی کیوں ہورہی ہے؟
پاکستان میٹرو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ زبیر احمد صدیقی نے ڈ ی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ " پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ میں بھی جنوری اور فروری میں بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ ستمبر سن 2020 میں بننے والا کمزور لا نینا سسٹم تھا جو امریکہ کی مغربی ٹروپیکل ساحلی پٹی پر سمندری پانی کے ٹھنڈے ہونے کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ یہ سسٹم دسمبر سن 2020 تک مضبوط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں موسم سرما کے دوران معمول سے انتہائی کم یا بالکل ہی بارش نہیں ہوئی۔ یہ ایک بڑی موسمیاتی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے اور ایک پریشان کن صورتحال بھی ہے، کیونکہ بارشوں اور برف باری کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح بہت کم ہو گئی ہے"۔
موسم گرما میں سمندر کے پانیوں کا درجۂ بڑھنے سے بحیرۂ عرب اور خلیج بنگال میں سائیکلون اور سمندری طوفانوں کی تعداد میں پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔ جس کا مشاہدہ اگست سن 2020 میں کراچی و سندھ کے دیگر علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں کی صورت میں دیکھا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے جس سے بارشوں کا نظام براہِ راست متاثر ہوا ہے۔
سمندری پانی، پینے کے قابل کیسے بنایا جاتا ہے
پانی کے بحران کی دیگر وجوہات کیا ہیں؟
سن 2017 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی جانب سے ایک انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ اگر پانی کے ضیاع کو روکا نہیں گیا تو 2025 تک ملک میں پانی کی شدید قلت ہو سکتی ہے۔ فی الوقت ملک کے 80 فیصد علاقوں کو پینے کا جو پانی دستیاب ہے وہ مضر صحت ہے اور متعددد وبائی امراض کا سبب بن رہا ہے۔
پرائم منسٹر ٹاسک فورس فار کلائی میٹ چینج کے سابق رکن اور ڈائریکٹر آف پاکستان واٹر پاٹنر شپ ڈاکٹر پرویز عامر نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ" کہا جاتا ہے کہ قیام ِ پاکستان کے وقت ملک میں تقریبا 5 ہزار کیوبک میٹر پانی کے ذخائر تھے جو اب گھٹ کر محض ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گئے ہیں۔ اس کمی کی بڑی وجہ ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ضروریات ِ زندگی کے لئے صاف پانی کا بے دریغ استعمال ہے، جبکہ حکومتوں کی جانب سے بھی پانی کے ذخائر کی حفاظت اور فراہمی کے نظام میں بڑے نقائص ہیں۔
اسرائیلی فرم کا غزہ پٹی میں ہوا سے پینے کا صاف پانی نچوڑنے کا منصوبہ
کون سے اقدامات نا گزیر ہیں؟
ڈاکٹر پرویزعامر کا کہنا ہے کہ" ملک کے بیشتر علاقوں میں گنا اور کپاس کاشت کی جاتی ہے جو بہت زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلیں ہیں۔ زمینداروں اور کسانوں کی اس طرف توجہ نہیں دلائی گئی کہ وہ ایسی فصلیں کاشت کریں جن میں پانی کی کھپت کم ہو۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں درخت لگانے کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ چاروں صوبوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے اپنے صدیوں پرانے ایکو لوجیکل سسٹم میں بگاڑ خود پیدا کیا ہے۔ اس میں ساحلی علاقوں میں مینگروز کی کٹا ئی سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ جس کے اثرات کبھی بارشوں کی قلت اور کبھی طوفانوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں"۔
ڈاکٹر پرویز کے مطابق " صرف مخصوص علاقوں میں سونامی ٹری مہم کے بجائے اگر دیگر علاقوں میں بھی تھوڑے تھوڑے درخت اگائے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے"۔
"ڈے زیرو "جیسی مہم کی ضرورت ہے!
سن 2010 میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی انتظامیہ نے " ڈے زیرو" کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا کیونکہ شہر میں پانی کی شدید قلت ہو چکی تھی اور ماہرین نے وارننگ جاری کی تھی کہ صرف تین ماہ میں شہر سے پانی ناپید ہو جائے گا۔ اس کڑی صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتظامیہ نے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی مہم کا آغاز کیا کہ روز مرہ استعمال ہونے والے پانی کی کھپت کو اگر ہر گھرانہ آدھا کردے تو صورتحال پر قابو پا یا جا سکتا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ اسٹریٹیجی کامیاب بھی رہی۔
پاکستان میں بھی اگر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے " پانی کی قدر کیجیے" مہم کا آغاز کیا جائے اور روز مرہ سے لے کر صنعت و زراعت تک پانی کے استعمال کو کم کیا جائے تو مستقبل کے بڑے بحران سے بچا جا سکتا ہے۔