1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانی کا بحران: پاکستان خشک کیوں ہو رہا ہے؟

8 جون 2018

پانی کی سخت قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔ سن 2025 تک پاکستان میں پانی کی کمیابی کا مسئلہ سنگین تر ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے بقول اس صورتحال میں حکام کو فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

Weltwassertag 22.03.2018
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پانی کی سنگین قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی اور آبی ذخائر کے لیے پاکستانی کونسل برائے تحقیق (پی سی آر ڈبلیو آر) نے خبردار کیا ہے کہ سن دو ہزار پچیس تک یہ جنوب ایشیائی ملک پانی کے شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے ہیومنیٹیرین کوآرڈینٹر نیل بوہنے کے مطابق پانی کے اس بحران کی وجہ سے پاکستان کا کوئی علاقہ بھی نہیں بچ سکے گا۔

محققین نے ایسے اندازے بھی لگائے ہیں کہ سن دو ہزار چالیس تک شہریوں کی پانی کی طلب کو پورا کرنے کے حوالے سے پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں کئی عالمی اداروں نے پہلی مرتبہ پاکستانی حکام کو خبردار کیا ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے فوری ایکشن نہ لیا گیا تو صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ کئی ماہرین نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران دہشت گردی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔

کسان آلودہ پانی سے سبزیاں کاشت کرنے پر مجبور

02:45

This browser does not support the video element.

بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی تبدیلیاں

ماہرین کے مطابق پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری علاقوں میں وسعت پانی کے بحران کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، پانی کی ناقص منیجمنٹ اور سیاسی عزم کی کمی نے اس معاملے کو زیادہ شدید کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر حدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں مئی کے مہینے میں گرمی کی لہر کے باعث 65 افراد مارے گئے تھے۔

پاکستان میں ماہر ماحولیات میاں احمد سلیم ملک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ’’پاکستان میں گرمی کی لہروں اور قحطوں کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے مون سون کے موسم کی پیشن گوئی مشکل ہو گئی ہے جبکہ ملک کے کئی علاقوں میں موسم سرما مختصر ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بارش کے پانی کو ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ احمد سلیم ملک کے مطابق پاکستان کو پانی کی ذخائر تعمیر کرنے کے لیے سرمایا کاری کرنا ہو گی۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق رواں ماہ کے دوران پاکستان میں پانی کے دو بڑے ذخائر منگلہ اور تربیلا ڈیموں میں پانی کی سطح انتہائی خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ ان خبروں پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے لیکن حکام نے اس نئے بحران سے نمٹنے کی خاطر ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) کے ترجمان محمد خالد رانا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ پاکستان کے دو بڑے آبی ذخائر (منگلہ اور تربیلا ڈیموں) میں پانی صرف تیس دن کی ضرورت کے لیے ہی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جبکہ بھارت ایک سو نوے دنوں تک کے استعمال کے لیے پانی اسٹور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور امریکا تو نو سو دنوں تک پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔

انسانوں کا پیدا کردہ بحران

جنوبی ایشیائی امور کے ماہر میشائل کوگلمان کے مطابق پاکستان میں پانی کا بحران جزوی طور پر انسانوں کی طرف سے ہی پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کی خاطر حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی رہنماؤں اور تمام فریقین کو اس چیلنج سے نمٹنے کی خاطر ذمہ داری اٹھانا ہو گی اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کوگلمان نے اصرار کیا کہ اس بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرنے سے اسے حل نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں پانی کے ذخائر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کی ضرورت بھی ہے۔ پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد سلہری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں زور دیا کہ پاکستان میں پانی کا غلط استعمال ہر سطح پر ہو رہا ہے۔

پاکستان میں پانی کے بحران میں شدت دیکھے جانے کے بعد کئی عالمی سفارتکاروں نے سوشل میڈیا پر ایک مہم بھی شروع کی، جس میں عوام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پانی کے بے دریغ استعمال سے گریز کریں۔ ان میں پاکستان میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر بھی شامل تھے، جنہوں نے ٹوئٹر پر اپنی ایک تصویر کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی کہ کئی طریقوں سے پانی کے زیاں سے بچا جا سکتا ہے۔

رواں برس اپریل میں ہی حکومت نے پاکستان کی پہلی قومی واٹر پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان میں پانی کے بحران پر قابو پانے کی خاطر پہلے سے جاری کوششوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ تاہم ماہرین، حکومت پاکستان کی طرف سے کیے گئے ان اعلانات پر کچھ شائق نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت نگران حکومت قائم ہے جبکہ پچیس جولائی کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ پانی کے بحران کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں نہ تو نگران حکومت کی کوئی ترجیح دکھائی دے رہی ہے اور پانی کی قلت کا معاملہ نہ ہی ان انتخابات میں حصہ لینے والی اہم سیاسی پارٹیوں کے منشور کا حصہ ہے۔

ع ب/ ش م ب/ ا ب ا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں