1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانی کی قدر کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے

6 جون 2022

انسان کی نفسیات ہے کہ جب اسے ایک سہولت میسر ہو تو اکثر انسان اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ پانی کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں مگر ہمارے کان پرجوں نہیں رینگ رہی۔

تصویر: Privat

ایک لمحے کے لیے اس دن کا سوچیے کہ جب آپ صبح سویرے جاگے ہیں، غسل خانے میں پہنچ کر ٹونٹی کھولتے ہیں تو نلکے سے پانی کے بجائے صرف ہوا آتی ہے۔ اس غیر متوقع صورتحال کا اندازہ کراچی والے بخوبی کر سکتے ہیں کیونکہ یہ تکلیف ان کے لیے نئی ہرگز نہیں ہے اور اس پریشانی سے نپٹنے کے لیے اضافی پانی کسی ٹنکی یا گیلن میں ذخیرہ کرکے رکھ لیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ سے کہا جائے اس نلکے میں پانی اب کبھی نہیں آئے گا تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ نہیں جناب ایسی روح فرسا صورتحال کا ہم تصور بھی نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن کیا آنکھیں بند کر لینے سے مصیبت ٹل جائے گی؟

مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں پانی کے زیاں پر گھر میں بڑوں سے اچھا خاصا لیکچر سننے کو مل جاتا تھا۔ ہمیں یہ ڈانٹ کافی گراں گزرتی تھی کیوں کہ ہم نے کبھی پانی کی قلت کا سامنا نہیں کیا تھا۔ پھر بھی ہمارے بزرگوں کو پانی کے کم ہوتے ذخائر کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔آج تحقیقاتی ادارے چلّا چلّا کر بتا رہے ہیں کہ مصیبت اب آیا ہی چاہتی ہے۔ پانی کی قلت کا جن بوتل سے نکلنے ہی والا ہے، مگر ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی کیونکہ ہمارے علاقے میں آج کل پانی کی فراوانی ہے۔ ہر دوسرے دن ہم اپنا ٹینک نہ صرف بھر لیتے ہیں بلکہ بھرنے کے بعد بھی موٹر بند کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ کیوں کہ ہمیں کون سا اس کا بل دینا ہے۔ ہمیں اگر بتایا جائے کہ دنیا میں پینے کے قابل صاف پانی کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں تو ہم جواب دیتے ہیں کہ نہیں نہیں اللہ کا شکر ہے ہمارے ایریا میں تو ہر روز پانی آتا ہے۔ انسان کی نفسیات ہے کہ جب ایک سہولت میسر ہو تو اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس خیال سے قطع نظر کہ یہ سہولت کبھی چھن بھی سکتی ہے۔ پانی کے استعمال کے حوالے سے بھی ہمارے رویے کچھ ایسے ہی ہیں۔  

ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں کی 84 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ پاکستان 1990ء میں ہی "واٹر اسڑیس لائن" سے نیچے جا چکا تھا۔ یعنی آج سے تیس سال پہلے اس ملک میں پانی کی ایمرجنسی نافذ ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن پانی کو استعمال کرنے کی ہماری عادات دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم شاید اگلے ہزار سال کا پانی ذخیرہ کیے بیٹھے ہیں۔ جبکہ پانی کی سنگین قلت کا شکار ہونے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔

ملکی اور صنعتی سطح پر پانی کا زیاں روکنا تو بیشک عوام کے اختیار میں نہیں ہے۔ لیکن تحقیقات بتاتی ہیں کہ اگر گھریلو صارفین بھی پانی کی بچت شروع کریں تو پانی کی قلت کے اس جن کو مزید کچھ عرصے کے لیے بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اپنی عادات بدلنی ہوں گی۔  

چند تجاویز :

1۔ ایک ریسرچ کے مطابق گھروں کے خراب نلکوں سے تقریبا 14 فیصد پانی رس کر ضائع ہو جاتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے گھر کے خراب نلکے اور ٹونٹیاں فوری طور پر مرمت کرائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پانی ٹپک ٹپک کر ضائع نا ہو۔

2۔ اکثر و بیشتر خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ برتن دھوتے وقت یا کپڑے دھوتے وقت نلکا کھلا چھوڑ دیتی ہیں۔ جتنی دیر تک برتنوں پر صابن لگایا جا رہا ہے یا کپڑے واشنگ مشین سے نکالے جا رہے ہیں اتنی دیر تک نل سے پانی بہتا رہتا ہے۔ کوشش کریں کہ سارے عمل میں کم سے کم پانی استعمال کریں اور نل صرف ضرورت کے وقت کھولیں اور پھر بند کر دیں۔ آپ کے بار بار نل کھولنے اور بند کرنے کی معمولی سی مشقت آنے والی نسلوں کے مصائب کو کم کرے گی۔

3۔ ہم میں سے اکثر لوگ دانت برش کرتے وقت بھی نل کھلا چھوڑ دیتے ہیں جب کہ بہتر یہ ہے کہ صرف برش کو گیلا کرنے کے لیے نل کھولیں اور پھر بند کر دیں۔ دانت برش کرنے کے بعد نل کی باریک سی دھار کھولیں اور پانی احتیاط سے استعمال کریں۔

4۔ اسی طرح جب ہم شاور لیتے ہیں تو پانچ گنا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ شاور کا دورانیہ مختصر کیا جائے یا پھر ممکن ہو تو پانی کو بالٹی میں لے کر استعمال کرنے سے بہت سا پانی بچایا جا سکتا ہے

5۔ اسی طرح گھر کی دھلائی اور گاڑی کی دھلائی پائپ کے ذریعے کرنے سے کئی گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ گاڑی کی دھلائی کے لیے اگر بالٹی کا استعمال کیا جائے تو سینکڑوں گیلن پانی کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ہر روز گھر کی دھلائی کرنے کے بجائے ہفتے میں ایک بار دھلائی کی جائے اور باقی دنوں میں پوچا لگا کر کام چلا لیا جائے۔

پانی کو ایک سے زائد بار استعمال کیا جائے:

6۔ کچن میں سبزیوں اور پھلوں کو دھونے کے لیے یا پھر چاولوں کو پکاتے وقت دھونے کے لیے بہت سا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی پانی اگر کسی برتن میں جمع کر کے پودوں میں ڈال دیا جائے تو یہ پودوں کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا اور پانی کو دوبارہ استعمال کیا جا سکے گا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کا نہ کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہم اس حوالے سے شعور رکھتے ہیں۔

7۔ یہ قطعی ضروری نہیں کہ باتھ روم کے فلیش میں استعمال ہونے والا پانی صاف اور میٹھا ہو۔ گھر کی دھلائی یا گاڑی کے دھلائی یا کپڑوں کی دھلائی میں استعمال ہونے والا پانی بھی فلیش کے لیے دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

8۔ اسی طرح کپڑوں کو مشین سے نکالنے کے بعد پانی سے نتھارنے میں بھی بہت سارا پانی خرچ ہوتا ہے اگر اس پانی کو گھر کی دھلائی میں استعمال کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ 

یہ چند چھوٹی چھوٹی سی احتیاطی تدابیر ہیں جنہیں اگر ہم اپنا لیں تو پانی کی قلت کو کچھ عرصے کے لیے ٹالا جا سکتا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ انسانی زندگی کی بقا کا دارومدار پانی کی دستیابی پر ہے۔ ابھی حالیہ چولستان میں بننے والی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔ ہم یقیناً کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہماری آنے والی نسلیں ایسی صورتحال کا سامنا کریں۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئر، سمندری پانی کی بڑھتی ہوئی سطح اور زیر زمین پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی سطح انتہائی خوفناک صورتحال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کا دارومدار زراعت پر ہے۔ لیکن ہمارے رویے بتاتے ہیں کہ ماحولیات کی تباہی کا شاید ہمیں صحیح طرح سے ادراک ہی نہیں ہے۔ پانی کی قدر کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں