پاپائے روم مقدس پطرس کے دیس میں
15 مئی 2009جب کوئی شخص سفر کرتا ہے تو اسکے پاس بیان کرنے کے لئے بہت کچھ ہوتا۔ یہ زباں زد عام ہے۔ اور بات صحیح بھی ہے۔ پاپائے روم نے مسیحی عقیدے کے مطابق مقدس پطرس کے گدی نشین ہونے کے ناطے ان کے وطن کا دورہ کیا۔
وہ خود چاہیں یا نہ چاہیں، پوپ کا مرتبہ محض روحانی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی نوعیت سیاسی بھی ہے۔ خاص طور سے مشرق وسطٰی کے خطے میں سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط کرکے دیکھا جاتا ہے کہ ان دونوں کے مابین فرق کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ جب بھی پوپ کے بارے میں بات چیت ہوتی ہے تو اسے سیاسی اور روحانی دونوں طرح کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کے پانچ سالہ دور پاپائیت کے دوران بہت سے امور نے انہیں خاصا متنازعہ بنا دیا ہے۔
بینیڈکٹ شانزدہم کا ذکر آتے ہی بہت سے لوگوں کے اذہان میں پیغمبر اسلام کے بارے میں ریگنزبرگ کی انکی متنازعہ تقریریا نازی سوشلسٹوں کے دور میں یہودیوں کے قتل عام کو جھٹلانے والے انگریز بشپ ولیمسن کو دوبارہ کیتھولک چرچ میں شامل کرنے کے فیصلے سے متعلق ہونے والی بحث کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ تا ہم پاپائے روم کے مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران اس قسم کی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی ۔ مذہبی سطح پر وہ مطمئن نظر آرہے ہیں۔ انکی قیادت میں مذہبی رسومات اور عبادات میں شریک ہونے والے ان کی روحانی خدمات سے کافی متاثر ہوئے۔
پاپائے روم نے اپنے اس دورے کے دوران تمام عالمی مذاہب کے مابین مفاہمت کا جو پیغام دیا تھا اس کی صدا بھی ہر طرف سنی گئی۔ تاہم پاپائے روم کے مشرق وسطیٰ کے اس دورے کا سیاسی پہلو خاصا مبہم اور غیر واضح رہا۔ ہولو کاسٹ کی یاد گار یاد واشم میں کیتھولک چرچ کے 82 سالہ سربراہ کو محض مرنے والے نہیں بلکہ قتل کئے جانے والے یہودیوں کے بارے میں بیانات دینے پڑے۔
انہوں نے ہر طرح کے صہونیت دشمن جذبات کی بھرپور مذمت کی۔ تاہم ان کے یہ بیانات کس حد تک قابل بھروسہ ہیں اس کا دار ومدار ان کے بشپ ولیمسن کے ساتھ مستقبل کے معاملات پر ہوگا۔
پوپ بینیڈکٹ نے یہودیوں کے مقدس مقام پر کھڑے ہوکر اس خطے میں امن کی ضرورت پر زور تو دیا تاہم ایک جرمن پوپ ہونے کے ناطے وہ شاید اس سے زیادہ واضح پیغام دے سکتے تھے۔ حیرت انگیز یا غیر معمولی امر یہ تھا کہ پاپائے روم نے عرب اردن اور غزہ پٹی کے باشندوں کے حامی کے طور پر ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی۔ حالانکہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں ان کے نظریات پہلے سے معلوم تھے تاہم ٹھیک بیت الحم کے اندر، اسرائیلی دیوار کے سائے میں کھڑے ہو کر اس علاقے کو تقسیم کرنے والی دیوار کو تنقید کا نشانہ بنانا، فلسطینیوں کے ان کے اجداد کی سرزمین پر ایک خود مختار وطن کے حصول کے حق کی تائید کرنا اور گذشتہ سال ہونے والی غزہ کی جنگ کی مذمت کرنا، یہ سب کچھ نہایت ہمت اور بہادری کی نشانی تھی۔