پاپوآ نیوگنی میں قائم مہاجرین کے آسٹریلوی حراستی مرکز کی بندش پر علاقے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مہاجرین کے حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس سلسلے میں شفافیت کی اشد ضرورت ہے۔
اشتہار
مانُس جزیرے پر واقع حراستی مرکز میں قریب آٹھ سو تارکین وطن موجود ہیں اور اسے منگل کے روز ختم کر دیا جائے گا۔ پاپوآ نیوگنی کی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ تارکین وطن کو اس طرح حراست میں رکھنا غیرآئینی عمل ہے۔
آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کرنے والے ان تارکین وطن کو آسٹریلیا کی بحیرہ سمندر ہی سے حراست میں لے کر پاپوآ نیوگنی کے جزائر میں سے ایک پر واقع اس حراستی مراکز پر لاتی رہی ہے۔ پاپوآنیوگنی میں قائم ان حراستی مراکز کا انتظام و انصرام آسٹریلیا کے پاس تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ کینبرا حکومت ان مہاجرین کے مستقبل سے متعلق اپنے منصوبوں کو بیان کرے، تاکہ ان تارکین وطن کو لاحق بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M. Jawad
6 تصاویر1 | 6
بحرالکاہل کے علاقے میں واقع ان دو مہاجر بستیوں میں سے ایک کو پانی اور بجلی کی فراہمی کاٹی جا رہی ہے، جب کہ اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ان تارکین وطن کو زبردستی کسی عارضی مرکز میں منتقل کیا جائے گا اور ان کے مستقبل کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس صورت حال کو ’انتہائی کشیدہ‘ قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ تمام سکیورٹی اہلکار بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور کسی ناخوش گوار صورت حال میں طاقت کے بے دریغ استعمال سے اجتناب کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پیسیفک کے خطے کے لیے ریسرچر کیٹ شوئٹزے کے مطابق، ’’آسٹریلیا اور پاپوآ نیو گنی کی حکومتیں تشدد سے اجتناب کے تمام تر اقدامات کریں اور ان مہاجرین کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
یورپ جانے کا شوق، ’پاکستانی مہاجرین بھی پھنس گئے‘
02:38
مانُس جزیرے پر موجود سیاسی پناہ کے جائز درخواست گزاروں کو بھی آسٹریلیا میں بسانے پر قدغنیں عائد ہیں۔
ان افراد سے کہا جا رہا ہے کہ وہ یا تو ایک دوسرے جزیرے ناؤرو پر واقع مہاجر بستی میں منتقل ہو جائیں یا پھر اپنے اپنے وطن لوٹ جائیں اور یا پھر کمبوڈیا میں بسنے کے لیے رضامندی ظاہر کر دیں۔ ان افراد کو چوتھا اور آخری امکان یہ دکھایا جا رہا ہے کہ وہ پاپوآ نیو گنی ہی میں اپنی زندگی بسر کریں۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت مانُس اور ناؤرو جزائر پر موجود افراد کو امریکا میں بسایا جانا تھا، تاہم امریکا نے اب تک ان میں سے چند ہی تارکین وطن کو قبول کیا ہے۔