1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان:غذائی عدم تحفظ میں اضافہ

Kishwar Mustafa27 جولائی 2012

پاکستان میں مصیبت زدہ افراد کی امداد میں مصروف عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہیں فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ادارے کو اکتوبر میں امدادی منصوبے بند کرنا پڑ سکتے ہیں۔

تصویر: AP

اسلام آباد میں ڈبلیو ایف پی کے نمائندے امجد جمال کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کو اس وقت پاکستان میں 70 ملین ڈالر کے فنڈ کی کمی کا سامنا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے خصوصی انٹرویو میں امجد جمال نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام پاکستان میں 74 لاکھ افراد کی غذائی ضروریات پوری کر رہا ہے جن میں ملک کے مختلف حصوں کے پرائمری اسکولوں میں زیر تعلیم 13 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غذائی پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں بڑی تعداد غذائی کمی کا شکار خواتین کی بھی ہے۔ امجد جمال نے بتایا کہ یہ پروگرام دو سالہ یعنی 12-2011 کے لیے تھا جو کہ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں ، پنجاب ، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں اسکول فیڈنگ اور غذائیت کے پروگرامز پر مشتمل تھا۔ اس کے لیے ہمیں 70 ملین کے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جس سے ہم مجبور ہو گئے اور ہمیں یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا کہ اندرون تصادم والے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کیے لیے راشن میں کمی کر دی گئی۔''

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی کا تقریباً نصف حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس بے تحاشا غربت کی وجہ سے آبادی کے اس حصے میں سے اکثر لوگ امدادی تنظیموں کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں حکومت میں غذائی تحفظ اور تحقیقات کی وزارت کے تحت ورلڈ فوڈ پروگرام کے ساتھ مل کر ‘‘ زیرو ہنگر ’’ نامی پروگرام شروع کیا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت حکومت بڑی مقدارمیں گندم ورلڈ فوڈ پروگرام کو مہیا کرے گی جو انہیں مختلف غذائی اشیاء میں تبدیل کر کے غذائی عدم تحفظ کے شکار علاقوں میں تقسیم کرے گا۔ اس حوالے سے ڈبلیو ایف پی پاکستان کے چالیس اضلاع کی نشاندہی کر چکا ہے جہاں کی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ امجد جمال کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے فنڈز کی کمی کے حوالے سے بین الاقوامی ڈونرز کو آگاہ کر دیا ہے انہوں نے کہا کہ

پاکستان میں آنے والی ناگہانی آفات نے بھی ملک میں غذائی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہےتصویر: AP

‘‘ہم نے ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ اب ان کے ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں امید ہے کہ ہمیں مثبت رسپانس ملے گا تاہم اکتوبر تک ہمیں جو 70 ملین ڈالر کی ضرورت ہے اس میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوئی تو پروگرامز بند ہونے کا خطرہ ہے اگر فنڈنگ نہیں ہوگی تو کوئی پروگرام نہیں ہوگا۔''

مبصرین کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کے خاتمے اور متاثرہ افراد کو خوراک کی فراہمی کے لیے حکومت کو بھی بین الاقوامی امدادی اداروں کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کرنا پڑے گا۔

رٹورٹ:شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: کشور مصطفیٰ

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں