پاکستانیوں جیسا طرز زندگی اختیار کریں تو نصف دنیا ہی کافی
شمشیر حیدر
30 جولائی 2019
پیر انتیس جولائی کے روز انسان نے زمین پر قدرتی وسائل کے استعمال کا اپنا اس برس کا اوسط کوٹہ پورا کر لیا۔ لیکن دنیا کے تمام انسان اگر پاکستانیوں جیسا طرز زندگی اختیار کریں تو ان کے لیے نصف دنیا ہی کافی ہو گی۔
اشتہار
زمین پر انسانی آبادی نے قدرتی وسائل کے استعمال کا اپنا اس سال کا اوسط کوٹہ ابھی سے پورا کر لیا ہے۔ یوں سال رواں کے آخر تک جتنے بھی قدرتی وسائل استعمال کیے جائیں گے، ان کی حیثیت ایک طرح سے 'ماحولیاتی قرضے‘ کی سی ہو گی۔
ایسے کسی بھی دن کو ہر سال 'یوم تخطی زمین‘یا 'ورلڈ اوور شوٹ ڈے‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ گلوبل فٹ پرنٹ نیٹ ورک نامی تنظیم کے مطابق اس سال یہ دن پیر انتیس جولائی کو منایا گیا۔ انسانوں کو اس سال اکتیس دسمبر تک جتنے زمینی وسائل استعمال کرنا تھے، وہ انتیس جولائی تک استعمال کیے جا چکے ہیں۔ گزشتہ برس یہ حد تین دن بعد یعنی یکم اگست کو عبور کی گئی تھی۔
گلوبل فٹ پرنٹ نیٹ ورک کے مطابق اگر تمام دنیا پر بسنے والے انسان قدرتی وسائل کا استعمال قطری شہریوں کی طرح کریں تو سال بھر کے لیے وسائل گیارہ فروری کو ہی ختم ہو جائیں گے۔ تاہم اگر انڈونیشیا کے شہریوں کی طرح وسائل استعمال میں لائے جائیں تو پھر سال بھر کا کوٹہ اٹھارہ دسمبر کو پورا ہو گا۔
اسی طرح اگر تمام انسان امریکیوں جیسا طرز زندگی اختیار کر لیں تو انسانی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہمیں ایک نہیں بلکہ زمین جتنے پانچ کرہ ارض درکار ہوں گے۔ جرمن شہریوں کی طرح قدرتی وسائل استعمال میں لائے جائیں تو تین زمینیں انسانوں کی ضروریات پوری کر سکتی ہیں۔
بھارتی شہریوں کا طرز زندگی اختیار کرنے سے ہمیں 0.7 کرہ ارض کافی رہیں گے، لیکن اگر تمام انسان اتنے قدرتی وسائل استعمال میں لائیں جتنا کہ پاکستان کے شہری استعمال کرتے ہیں، تو ایسی صورت میں نصف کرہ ارض ہی سبھی انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ یعنی پاکستانی دیگر اقوام کی نسبت کم قدرتی وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
اس دنیا کا تحفظ کیسے ممکن ہو؟
ہر سال کے طرح اس مرتبہ بھی انسانوں نے 2019ء کے مقرر کردہ تمام تر قدرتی وسائل انتیس جولائی تک استعمال کر لیے۔ اسلام اور دیگر مذاہب بھی اس دنیا اور قدرت کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
پانی، زندگی کا اہم جزو
دنیا کے کچھ خطوں میں تازہ پانی تک رسائی کو انتہائی غیر سنجیدہ طور پر لیا جاتا ہے تاہم حقیقت میں یہ ایک ’عیاشی‘ ہے۔ دنیا میں موجود پانی میں سے تازہ اور پینے کے لیے آلودگی سے پاک پانی کا ذخیرہ صرف 2.5 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی نصف سے زائد برف ہے۔ سن دو ہزار پچاس تک دنیا کی آبادی کا ایک تہائی اس اہم جنس کی شدید کم یابی کا شکار ہو جائے گا، جس سے انسانی زندگی شدید متاثر ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress
زیر کاشت زمین، ایک نیا سونا
زیر کاشت زمین کے حصول کی خاطر دنیا بھر میں مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اجناس کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی انسان اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی سے اس زمین کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ چین اور سعودی عرب اس کوشش میں ہیں کہ وہ افریقہ میں قابل کاشت زمینیں خرید لیں۔ نئے دور میں یہ زمین ایک نیا سونا بنتی جا رہی ہے۔
تصویر: Imago/Blickwinkel
فوسل فیولز، قدیمی ذرائع توانائی
زمین سے حاصل کردہ قدیمی ذرائع توانائی میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ تیل، گیس اور اسی طرح کے دیگر فوسل فیولز کو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عراق اور لیبیا جیسے ممالک کے لیے یہ زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ وہاں موجود قدرتی گیس اور تیل کی ذخائر کے خاتمے کے بعد ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpaH. Oeyvind
کوئلہ، اہم مگر آلودگی کا باعث
جرمنی جیسے ممالک بھی اگرچہ توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف قدم بڑھانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں لیکن اچھے کوئلے کے ذخائر بھی ختم ہونے کے قریب ہیں۔ پولینڈ میں بھورے کوئلے کے وسیع تر ذخائر سن دو ہزار تیس تک ختم ہو جائیں گے۔ سخت کوئلے کی کانیں شاید باقی بچیں گی لیکن وہ بھی جلد ختم ہو جائیں گی۔
تصویر: picture alliance/PAP/A. Grygiel
ریت، ہر طرف اور کہیں بھی نہیں
اگر ہم صحرا کو سوچیں تو ریت کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کی قدرتی پیداوار کا عمل انتہائی سست ہے۔ ریت بھی توانائی کا ایک متبادل ذریعہ ہے لیکن تعمیراتی مقاصد کی خاطر اسے اتنی تیزی سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ بالخصوص افریقہ، جہاں 2050ء آبادی دوگنا ہو جائے گی، تب وہاں یہ جنس نایاب ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Förster
ناپید ہوتے نایاب جانور
انسانوں کے لاپروا رویوں کی وجہ سے دنیا میں جانداروں کی کئی نسلیں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ پیش رفت اس زمین کے حیاتیاتی تنوع کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ شکار اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ خطرہ دوچند ہو چکا ہے۔ ان اہم جانوروں کے ختم ہونے سے انسانی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/I. Damanik
وقت، کیا یہ بھی ختم ہونے والا ہے؟
تو معلوم ہوتا ہے کی تمام اہم قدرتی وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا وقت بھی ختم ہونے کو ہے؟ اب بھی کچھ وقت باقی ہے اور کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر آئندہ بارہ برسوں کے لیے ’ماحولیاتی ایمرجنسی‘ نافذ کر دی جائے تو انسانوں کی پھیلائی ہوئی ماحولیاتی تباہی سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اگر عمل نہ کیا تو جلد ہی وقت بھی ختم ہو جائے گا۔