پاکستانیوں کی اکثریت سرعام پھانسی کے حق میں، سروے
9 فروری 2020انسانی حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، ''پھانسی کی سزا دینے والے ممالک عام طور پر یہ رائے رکھتے ہیں کہ جرائم کے تدارک کے لیے ایسی سزا ضروری ہے۔ تاہم یہ دعویٰ کئی مرتبہ غلط ثابت ہو چکا ہے۔ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جرائم میں کمی لانے کے لیے موت کی سزا دینا عمر قید کی سزا کی نسبت زیادہ موثر ہے۔‘‘
تاہم ایسے کئی عالمی جائزوں کے باوجود پاکستانی صارفین کی رائے سزائے موت کے حق میں دکھائی دیتی ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سروس کے فیس بک پیج پر کرائے جانے والے آن لائن سروے میں ساڑھے سولہ ہزار سے زائد صارفین نے شمولیت اختیار کی اور ان میں سے چورانوے فیصد نے سرعام پھانسی کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سزا کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد محض چھ فیصد تھی۔
یہ سروے پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک قرارداد کی منظوری کے تناظر میں کرایا گیا تھا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے۔
دوسری جانب پاکستان کے وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے بھی سرعام پھانسی دینے کی سخت مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی سزا نہ صرف پاکستانی آئین بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ ان کے مطابق سن 1994 میں ملکی سپریم کورٹ سرعام پھانسی کی سزا کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے لہذا وزارت قانون آئین اور شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔
انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی اس قرار داد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ''سرعام پھانسی سے متعلق قومی اسمبلی میں قرارداد پارٹی بنیادوں پر منظور کی گئی ہے۔ اسے حکومتی حمایت حاصل نہیں تھی لہذا اسے ایک ذاتی عمل سمجھا جائے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہماری وزارت انسانی حقوق اس کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔ بدقسمتی سے میں اس وقت ایک میٹینگ میں تھی اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں شامل نہیں ہو سکی۔‘‘
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان‘ نے لکھا، ''سن 1983ء میں پپو نامی لڑکے کے قاتل کو لاہور میں سرعام پھانسی دی گئی تھی۔ اس کی لاش سارا دن لٹکی رہی لیکن نہ تو اس ملک میں اور نہ ہی لاہور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کے قتل کے واقعات ختم ہوئے۔‘‘