پاکستانیوں کے لیے’ہائبرڈ نظام حکومت‘ کی خوشخبری
26 اگست 2020انٹرویو کے بعد ان کی ایک ٹویٹ نے یہ تاثر دیا کہ وزیر اعظم برملا فوج کی حکومتی معاملات میں مداخلت کا اعتراف اور اس کی حمایت بھی کرتے ہیں اور اس اشتراک کو 'ہائبرڈ نظام حکومت‘ کا نام دے کر اسے قوم کی مستقبل کی کامیابیوں کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں۔ اب اینکر پرسن کامران خان صاحب کے طرز صحافت کو 'ہائبرڈ سیاست‘ کہیں یا ان کے مہمان وزیراعظم عمران خان کے طرز سیاست کو 'ہائبرڈ صحافت‘، یہ عقدہ بھی جلد کھل جائے گا۔ فی الوقت بڑے خان صاحب عمران خان کا انٹرویو کرنے والے چھوٹے خان صاحب کامران خان کی یہی ٹویٹ موضوع بحث ہے۔ کامران خان نے ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ خان صاحب سویلین اور عسکری قیادت کے مشترکہ موجودہ 'ہائبرڈ نظام حکمرانی‘ سے بہت پر امید ہیں۔
دو مختلف نظاموں یا شعبوں کے ایسے اشتراک کو انگریزی میں''ہائبرڈ سسٹم‘‘ بولا جاتا ہے۔ یہ اشتراک جانوروں کی خاندانوں اور نسلوں کا بھی ہوتا ہے، جیسے کہ گھوڑے اور گدھے کی نسلوں کے ملاپ سے خچر کی پیدائش، جو زیادہ وزن اٹھانے کا کام آتا ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں 'ہائبرڈ گاڑیاں‘ پٹرول اور برقی بیٹریوں کے مشترکہ ملاپ کی کامیاب شاہکار ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں 'ہائبرڈ ٹیکسیاں‘ بھی سڑکوں پر ہیں مگر ایک بظاہر 'ہائبرڈ صحافی‘ کی طرف سے ایک 'بظاہر ہائبرڈ سیاستدان‘ کے 'ہائبرڈ نظام حکومت‘ کی حمایت سے متعلق ٹویٹ ایک نئے خطرناک سیاسی رجحان کی عکاس ہے۔
آج سے پہلے جتنی بھی ووٹ کے ذریعے سیاسی سویلین حکومتیں آئیں، حتی کہ جو عملی طور پر نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے میں بھی تھیں، وہ بھی فوج کے حقیقی اثر و رسوخ کا اعتراف کرتے ہوئے گریز کرتی تھیں۔ یہ الفاظ بھی بظاہر وزیراعظم عمران خان نے خود تو استعمال نہیں کیے مگر کامران خان صاحب کی ٹویٹ سے پیغام واضح ہے اور نہ ہی وزیراعظم صاحب کی طرف سے اس کی تردید سامنے آئی ہے۔
چاہے جنرل ضیاء الحق کے ماتحت وزیر اعظم محمد خان جونیجو ہوں، جنرل اسلم بیگ اور ان کے ساتھیوں کے کنٹرول میں بے نظیر بھٹو ہوں، جنرل وحید کاکڑ یا جنرل مشرف کی چھڑی کی نوک پر نواز شریف ہوں، جنرل کیانی کے سگار کے تمباکو کی طرح آصف زرداری ہوں یا جنرل راحیل شریف اور ان کے گدی نشینوں کے نشانے پر پھر نواز شریف ہوں، سب کے سب وزرائے اعظم عوام اور ووٹروں کے سامنے پردہ رکھتے ہوئے خود کو جمہوری اور بااختیار حکومت کے مالک ہی کہتے تھے۔
مگر آج سیاسی بے پردگی کی یہ انتہا ہو گئی ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم ایک ماورائے آئین ''ہائبرڈ نظام حکومت‘‘ کے وجود کو اپنی اور قوم کی خود ساختہ کامیابیوں سے منسوب کر رہے ہیں۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے کا دعویدار وزیراعظم بنیادی طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اور ان کے وزیر دفاع (جن کا کچھ لوگ شاید نام بھی بھول چکے ہیں) فوج پر آئین کے تحت ''کمانڈ اینڈ کنٹرول‘‘ نہیں رکھتے اور اس ملک میں عوام کی نہیں بلکہ ''ہائبرڈ طرز حکمرانی‘‘ چلے گی۔
عوام کے ووٹ اور آئین کے امین اپنی 'اصل ناکامی‘ کو اپنی سیاسی کامیابی کی دلیل کو طور پر پیش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں کوئی بھی سیاسی حکمران آئین کے دفاع میں اپنی 'ناکامی‘ کو کبھی بھی ایسا نام نہیں دے گا۔ یا تو سب کچھ گزشتہ الیکشنوں سے پہلے کا طے شدہ ہے، جس کے مطابق لوگوں کو جمہوریت کی منزل سے بھٹکا کر اس نام نہاد 'ہائبرڈ نظام‘ کی طرف لے کر جانا ہے، جس میں ٹھیکیداروں کو چینی کمپنیوں سے مزید ٹھیکے ملتے رہیں اور آئین، قانون، پارلیمنٹ، بااختیار حکومت، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا میں سے کوئی بھی ان پر سوال اٹھانے کے قابل بھی نہ رہے۔
اس ملک میں گزشتہ تہتر برسوں سے 'ہائبرڈ نظام حکومت‘ ہی تو چل رہا ہے، جس نے ہمیں بطور قوم اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ایک قصائی نے خرگوش کا گوشت بیچنا شروع کر دیا تو دوکان پر لائنیں لگ گئیں۔ کسی نے پوچھا تو بتایا بس ملا جلا (ہائبرڈ) گوشت بیچتا ہوں، جس میں آدھا حصہ ایک خرگوش اور دوسرا ایک اونٹ کا ہوتا ہے۔ ہمارا ہائبرڈ نظام بھی کچھ ایسی ہی برابری پر قائم رہا ہے، جس میں آمریت کا ایک اونٹ اور جمہوریت کا ایک خرگوش ہمیشہ ہی شامل رہے۔
جابرانہ، آمرانہ اور آئین سے باغیانہ رویوں کے ننگے پن کو ایسے ہی الفاظ کی چادر سے ہمیشہ ڈھانپا جاتا رہا ہے۔ کبھی فرشتے، کبھی اسٹیبلشمنٹ، کبھی خلائی مخلوق، کبھی محکمہ زراعت اور اب 'ہائبرڈ نظام حکومت‘ جیسے الفاظ خود بھی نظریاتی طور پر 'ہائبرڈ سیاستدانوں اور صحافیوں‘ کے بیانات کی زینت بن کر آئین کے غداروں کو شعوری یا لا شعوری طور پر تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس میں صرف موجودہ نہیں بلکہ ماضی کے تمام سیاسی حکمران بھی شامل ہیں۔ بظاہر آج کی اپوزیشن بھی اس 'ہائبرڈ نظام‘ کے تحت ہی اقتدار میں واپس آنا چاہتی ہے۔ اسی لیے فوری عام انتخابات کا مطالبہ، ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی طرح معدوم ہو گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور کامران خان صاحب کی طرف سے 'ہائبرڈ نظام حکومت‘ کا آئیڈیا تو لگتا ہے اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک پیش کش ہے، وہی پیش کش، جس کی قبولیت سے مشروط تھا 1988ء میں بے نظیر بھٹو کا اقتدار، وہ الیکشن تھا اور اب شاید ان ہاؤس سلیکشن ہو۔
ایک بات واضح ہے کہ عوام کو ایک نئے دو نسلی ملاپ کی جانب راغب کرنے کی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور عوام کی حالت زار کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی تو ہہلے ہی دوبارہ کسی انتخابی عمل کا حصہ بننے میں دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ نئے 'ہائبرڈ نظام‘ جیسے نئے الفاظ کا سہارا لے کر اور اپنے آہنی ہاتھوں پر قانون کے ریشمی دستانے پہن کر خان صاحب جیسے کسی نئے حکمران کی تلاش میں ہے؟ یہ سب کچھ 2022ء سے بہت پہلے ہونا شاید ضروری ہے اور اگر 2023ء تک معاملات چلے گئے تو پھر شاید 'ہائبرڈ سیاستدانوں، ہائبرڈ سرکاری ملازموں اور ہائبرڈ صحافیوں‘ کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔