پاکستانی آبادی کا 58 فیصد غذائی قلت کا شکار
18 ستمبر 2013قومی غذائی سروے 2011ء کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورتوں اور بچوں پر مشتمل آبادی کانصف حصہ غذائی کمی کا شکار ہے۔
اس سروے کے مطابق پاکستان مین صرف تین فیصد بچوں کو وہ خوراک میسر ہے جو صحتمند غذا کے کم سے کم معیار پر پورا اترتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 51 فیصد حاملہ جبکہ 50 فیصد غیر حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ بالغ آبادی کا تقریباﹰ 54 فیصد کا وزن نارمل نہیں ہے۔
قومی غذائی سروے کے مطابق ملک میں غذائی کمی کی بڑی وجوہات میں غربت ،ماؤں میں ناخواندگی کی شرح اور غذائی عدم تحفظ شامل ہے۔
تاہم اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف غربت، مہنگائی اور خوراک کی عدم دستیابی غذائی کمی کا سبب نہیں بلکہ مختلف حکومتوں کی عدم توجہی کے سبب اس مسئلے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹر ویو میں ڈاکٹر عابد سلہری نے مزید کہا: ’’پاکستان جیسا ذرعی ملک جو کبھی کبھی گندم بھی در آمد کرتا ہے، چاول بھی درآمد کرتا ہے، دودھ پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے، آم اور سنگترے بھی درآمد کرتا ہے تو یہاں پر دستیابی کا مسئلہ اتنا نہیں جتنا کہ سماجی وا قتصادی رسائی کا ہے۔ یہ گورننس کا مسئلہ ہے اور اس میں جو بھی حکومت ہے وہ خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے براہ راست ذمہ دار ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر ایک ہزار میں سے 86 بچے ہر سال ایسی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں جو قابل علاج ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال(یونیسیف) کے مطابق ان اموات میں سے 35 فیصد کی وجہ غذائی قلت ہے۔ یونیسف کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں 44 فیصد بچے غذائی کمی جب کہ 15 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
سابقہ حکومتوں کی طرح مسلم لیگ(ن)کی موجودہ حکومت بھی غذائی کمی کی صورتحال میں بہتری لانے کی دعویدار ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ملک میں غذائی قلت کی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک میں غذائی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے حکومت کو صورتحال کی بہتری کے لیے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے اور اس کے لیے سب سے پہلے قومی بجٹ میں غذائی تحفظ کے پروگرام کو خصوصی جگہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا: ’’پہلا جو ہمارا خرچہ ہے وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہوتا ہے بجٹ کا تقریباﹰ ایک تہائی حصہ اس میں نکل جاتا ہے۔ دوسرا خرچہ دفاعی اخراجات ہوتے ہیں ایک چوتھائی سے زیادہ اس میں نکل جاتا ہے تو جو ترقیاتی بجٹ ہے جو پینے کے صاف پانی، صحت کی سہولیات اور گورننس کی بہتری کو یقینی بنائے گا اس پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ بجٹ میں ہر سال کمی ہوتی چلی جارہی ہے تو اس طرح کے نتائج ہوں گے تو اس میں مجھے حیرت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔‘‘
دوسری جانب احسن اقبال کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کو دور کرنے کے لیے حکومت ایک ٹاسک فورس تشکیل دے رہی ہے تاکہ صوبوں کے ساتھ مل کر اس ضمن میں اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔