پاکستان میں امیر طبقے کو نہایت مہنگے اور نایاب جانوروں کا شوق ہے۔ ملک میں کئی جگہوں پر ان جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے نجی ’چڑیا گھر‘ تک بن چکے ہیں، جن میں وہ جانور بھی شامل ہیں، جو اپنی بقا کے خطرات سے دوچار ہیں۔
اشتہار
کراچی میں بلال منصور خواجہ نے اشرافیہ کے اسی شوق کی تسکین کے لیے ایک نجی 'چڑیاگھر‘ بنا رکھا ہے، جس میں سینکڑوں جنگلی جانور موجود ہیں۔
سفید شیر کے پاس بیٹھے اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے 29 سالہ منصور خواجہ کے مطابق، ''میرے پاس کچھ انتہائی نایاب جانور بھی ہیں۔‘‘
پاکستانی قوانین مہنگے اور نایاب جنگلی جانوروں کی درآمد کے حوالے سے خاصے نرم ہیں اور کوئی جانور ملک میں پہنچا دیا جائے، تو پھر یہ قوانین قریب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں نایاب جانوروں خصوصاﹰ شیر رکھنے کو امیری اور طاقت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں ایسے نایاب جانوروں کی پاکستان درآمد اور وہاں بریڈنگ کے رجحان میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب کہ جنگلی جانوروں کی بقا سے وابستہ حکام اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کراچی کا امیر طبقہ اپنی مہنگی گاڑیوں میں شیر کے ساتھ گھومنے اور تصاویر بنا کر پوسٹ کرتا نظر آتا ہے، جب کہ بعض اوقات اخبارات میں ایسی خبریں بھی دکھائی دیتی ہیں کہ شیر کے ساتھ سفر کرنے والے کسی شہری کو گرفتار کر لیا گیا۔
روسی فوجی اسکول، ’مورچوں میں بچپن‘
روس میں قائم فوجی اسکولوں میں بچے ریاضی اور تاریخ کے ساتھ ساتھ جنگی ساز و سامان کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کا مقصد ریاستی سر پرستی میں ایک عسکری اور محب وطن اشرافیہ تیار کرنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
روشن مستقبل
آج کے دور میں اگر کوئی روسی شہری اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کا خواہاں ہے، تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے ملک میں قائم دو سو سے زائد کیڈٹ اسکولوں میں سے کسی ایک میں تعلیم حاصل کریں۔ ان اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عکسری تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کے لیے بہت سے امکانات ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
مادر وطن کے لیے
اسکول میں پریڈ: ماسکو حکومت نے 2001ء میں ایک تربیتی منصوبہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد بچوں میں خصوصی طور پر وطن کے لیے محبت بڑھانا تھا۔ فوجی اسکول اور نیم فوجی کیمپس اس منصوبے کا حصہ تھے۔ اگر بچے اپنے کیڈٹ اسکول میں ایک فوجی کی طرح پریڈ کرنا چاہتے ہیں تو حب الوطنی کا جذبہ ان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک قدیم روایت
جنوبی روسی علاقے اسٹاروپول کے کیڈٹ اسکول کے بچے ایک پُر وقار تقریب کے ساتھ اپنے تعلیمی سال کا آغاز کرتے ہیں۔ جیرمیلوف جیسے دیگر کیڈٹ اسکولز روس میں ایک قدیم روایت رکھتے ہیں۔ زار اور اسٹالن کے زمانے کے اشرافیہ نے انہی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وجہ سے ان اسکولوں میں داخلے کا نظام بہت سخت ہے۔ صرف ذہین اور جسمانی طور پر فٹ بچوں کے ہی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک جنرل سے منسوب
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول 2002 ء میں بنایا گیا تھا اور یہ جنرل الیکسی پیٹرووچ جیرمیلوف سے منسوب ہے۔ جنرل جیرمیلوف نے انیسویں صدی میں نیپولین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور انہیں روس میں ایک جنگی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
نظم و ضبط
اس اسکول میں تعلیم کا حصول کسی پتھریلے راستے پر چلنے سے کم نہیں۔ اگر یہ بچے ایک کامیاب فوجی بننا چاہتے ہیں تو انہیں لازمی طور پر سخت تربیت کرنا پڑتی ہے۔ ان کیڈٹس کو باکسنگ اور مارشل آرٹ سکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فٹنس کے سخت مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
فائرنگ کیسے کی جاتی ہے
سخت جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو ہتھیار بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں اسلحہ بارود کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے اور فوجی انہیں فائرنگ کر کے بھی دکھاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
لڑکیاں بھی خوش آمدید
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول میں لڑکیوں کو بھی اعلی فوجی بننے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح خندقیں کھودتی ہیں اور انہیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی جنگل میں پھنس جائیں یا گم ہو جائیں تو وہاں سے کس طرح سے نکلا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
چھاتہ برداری
یہاں پر صرف تندرست اور ذہین ہی نہیں بلکہ بچوں کا باہمت ہونا بھی ضروری ہے۔ بہت سے والدین عام زندگی میں اپنے بچوں کو جن چیزوں سے روکتے ہیں ملٹری اسکولوں میں وہ روز مرہ کے معمول کا حصہ ہیں۔ پپراشوٹ جمپنگ اس کی ایک مثال ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
8 تصاویر1 | 8
خواجہ کے مطابق صرف کراچی شہر میں قریب تین سو افراد ایسے ہیں، جنہوں نے شیروں کو گھروں یا فارم ہاؤسز میں پال رکھا ہے۔
خواجہ اپنے چڑیا گھر میں موجود شیروں اور چیتوں کو 'نوادرات‘ قرار دیتے ہیں جب کہ ان کے پاس قریب چار ہزار مختلف جانور ہیں، جو انہوں نے گزشتہ کچھ برسوں میں جمع کیے ہیں۔
ان کا اصرار ہے کہ ان کے پاس موجود جانور آٹھ سو مختلف انواع سے تعلق رکھتے ہیں۔ خواجہ کا تاہم یہ دعویٰ بھی ہے کہ ان کے لیے یہ امارت یا طاقت کی علامت نہیں بلکہ جانوروں سے محبت کا اشارہ ہے، ''ہم پاکستانیوں کا ایک مسئلہ ہے، ہمارے دل بہت نرم ہیں، بے حد نرم۔ مگر جب ہمارا دل سخت ہو، تو پھر بہت سخت بھی ہو جاتا ہے۔‘‘
ان جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے خواجہ نے 30 ملازمین رکھے ہوئے ہیں جب کہ جانوروں کے چار ڈاکٹرز بھی مختلف شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔