پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کی ’’ڈیجیٹل محاصرے‘‘ کی شکایت
16 اگست 2024کئی صارفین کی شکایت ہے کہ میسیجنگ ایپ وٹس ایپ بھی درست طریقے سے کام نہیں کر رہا اور یہاں بھی وی پی این کے بغیر کوئی بڑی فائل نہیں کھل رہی۔ یاد رہے پاکستان میں ایکس پچھلے کئی مہینوں سے بند ہے، اس سے پہلے یو ٹیوب بھی کئی مہینے بند رہی تھی۔ اب وٹس ایپ میں مشکلات آ رہی ہیں۔
چین میں انٹرنیٹ کی بندش اور وی پی این کا استعمال
کالیں سننے اور ریکارڈ کرنے سے کچھ نہیں بدلنے والا
پاکستانی میں سکیورٹی وجوہات کا بہانہ بنا کر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی ایک پوری تاریخ ہے لیکن حال ہی میں پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ آ تی رہی ہیں کہ انٹرنیٹ میں تعطل کی وجہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لگائی جانے والی فائر وال ہےلیکن فائر وال کے معاملے پر حکومت نے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کے متعلقہ ادارے اور باقی سٹیک ہولڈرز بھی انہیں اس بارے میں کچھ نہ بتائے جانے کی شکایت کر رہے ہیں۔
صارفین کے ڈیجیٹل رائیٹس کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم بولو بھی کی رہنما فریحہ عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی حکومت فائر وال کے معاملے پر اپنے عوام کو تفصیلات سے محروم رکھ رہی ہے بلکہ بعض اوقات وہ غلط بیانی سے بھی کام لیتی ہے، جو لوگ فائر وال لگا رہے ہیں ان کو پارلیمنٹ یا دیگر اداروں کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے۔ فائر وال کیوں لگائی جا رہی ہے؟ اس کی قانونی پوزیشن کیا ہے؟ اس کی منظوری کہاں سے لی گئی ہے اس کے ناکام ہونے پر کون ذمہ دار ہو گا؟ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عوامی اہمیت کے اس معاملے پر بھی سینییٹ کی کمیٹی کے اجلاس کو ان کیمرہ کر دیا گیا تھا۔
کئی ماہ کی اپیلوں، یاد دہانیوں، درخواستوں اور مطالبوں کے بعد اب یہ معاملہ انصاف کے ایوانوں تک جا پہنچا ہے۔ جمعہ کے روز لاہور ہائیکورٹ نے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے اس ضمن میں جواب طلب کیا ہے۔ جسٹس شکیل احمد کی عدالت میں مقامی وکیل ندیم سرور کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک میں بغیر کسی نوٹس اور وجہ بتائے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس بند کر دی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش سے کاروبار حتی کہ ہر شعبہ ہائے زندگی متاثر ہو رہا ہے۔انٹرنیٹ بند کرنا بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ وفاقی حکومت کا انٹرنیٹ بند کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ ملک میں انٹرنیٹ کو مکمل اور فوری بحال کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی حامد میر نے بھی وکیل ایمان مزاری کے ذریعے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے مبینہ فائر وال لگانے کے عمل کی تفصیلات سے سٹیک ہولڈرز کو آگاہ کرنے، انٹرنیٹ کو معمول تک بحال کرنے اور اس کیس کے فیصلے تک فائر وال پر کام روکنے کی استدعا کی ہے۔
اگرچہ پاکستان کی حکومت نے اگلے روزپہلی مرتبہ انٹرنیٹ میں آنے والے خلل کو تسلیم کیا ہے۔ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) شیزہ فاطمہ خواجہ نے اسلام آباد میں رپورٹروں کو بتایا کہ ناگزیر انٹرنیٹ اسپیڈ کے حوالے سے شکایات مل رہی ہیں۔اس سے پہلے کئی ہفتوں تک حکومت اور حکومتی ادارے اس سے لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں سروسز مہیا کرنے والے پاکستان بیسڈ ایک سافٹ وئیر ہاؤس کے مالک بابر ایوب خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا انٹرنیٹ میں آنے والے خلل کی وجہ سے نہ کوئی فائل اپ لوڈ ہو رہی ہے اور نہ ہی ڈاون لوڈ ہو رہی ہے۔ وہ ایک کسٹمر کے ساتھ آن لائن میٹنگ کر رہے تھے کہ اچانک نیٹ چلے جانے سے انہیں بزنس سے جواب مل گیا۔ '' ہم انٹرنیٹ کے بغیر نہ عالمی منڈی میں پیمنٹ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ڈومین خرید سکتے ہیں۔ اگر حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانی ہیں تو پھر اسے آئی ٹی ہب بنانے اور طلبہ کو لیپ ٹاپ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
محمد بن متین نامی ایک سافٹ وئیر انجنئیر نے بتایا کہ سافٹ وئیر ہاوسز میں کام کرنے والے بہت سے ورکر دور دراز بیٹھ کر آن لائن کام کرتے ہیں، اب آن لائن کام کرنے والے ان لوگوں سے رابطہ ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ ''اس کے علاوہ آن لائن ٹیکسی سروسز، آن لائن فوڈ ڈلیوری والے، آن لائن کلاسز پڑھنے والے طلبہ سمیت بہت سےلوگ اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔ لوگ لوکیشن کے باوجود مطلوبہ جگہ پر نہیں پہنچ رہے کیونکہ گوگل کی تمام سروسز دستیاب نہیں ہیں۔ ‘‘
پاکستان کی ایک بڑی سافٹ وئیر کمپنی سے وابستہ ایک انٹرنیٹ ماہر وقار احمد نے بتایا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے فائر وال کے نام پر ایک ایسے منصوبے پر پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے جس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ '' آئی ٹی کی جدید دنیا سے نابلد پاکستان کی بیوروکریسی آج بھی پرانے دور میں جی رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالف کمنٹ لکھنے والوں سے بات چیت کی جانی چاہئیے ان کے تحفظات دور ہونے چاہیں نا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بند کرکے سارے کاروبار روک دئیے جائیں‘‘