پاکستانی اور افغان مہاجرین کا یورپ میں مستقبل کیا؟
عاطف بلوچ17 اگست 2016
یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین میں شامی، عراقی، افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ایک معقول تعداد بھی شامل ہے۔ تاہم یہ سوال برقرار ہے کہ ان پاکستانی مہاجرین کا یورپ میں مستقبل کیا ہو گا؟
اشتہار
یورپ میں پاکستانی اور افغان مہاجرین کی صورتحال
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں پاکستانی مہاجرین کا تناسب تین فیصد بنتا ہے۔ مہاجرین کے اس ادارے کے وسطی یورپ کے لیے ترجمان بابر بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ رواں سال کے پہلے سات ماہ کے دوران سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے والے پاکستانی تارکین وطن کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد تقریبا تیس ہزار کے قریب تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسی طرح رواں سال کے دوران یورپ پہنچنے والے افغان مہاجرین کی تعداد بھی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مہاجرین کا یورپ میں مستقبل کیا ہو گا؟
بابر بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان سے یورپ کا سفر کرنے والے مہاجرین اپنے اس خطرناک سفر کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ اپنے تجربات اور عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ مہاجرین اور تارکین وطن تو صاف صاف بتا دیتے ہیں کہ انہوں نے معاش کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔ تاہم ان میں بہت سے مہاجرین ایسے بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ مختلف خطرات کے باعث وہ مہاجرت کے سفر پر مجبور ہوئے۔
ایسی رپورٹوں کہ یورپ شامی مہاجرین کو ترجیحی بنیادوں پر پناہ دیتا ہے جب کہ دیگر ممالک، مثال کے طور پر پاکستانی اور افغان تارکین وطن کے ساتھ مبینہ طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے کے جواب میں بابر بلوچ نے کہا کہ دراصل کسی بھی شخص کو پناہ اس کی قومیت یا ملک کی بنیاد پر فراہم نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان اسباب کو دیکھا جاتا ہے، جن کی وجہ سے وہ مہاجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
بابر بلوچ کے مطابق اپنی بقاء کے لیے کسی دوسرے ملک میں پناہ کی تلاش بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں اگر کوئی شخص، جس کی جان کو خطرات لاحق ہیں، کے پناہ حاصل کرنے کے حق کو کوئی مسترد نہیں کر سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ جو لوگ معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت کرتے ہیں، انہیں واپس ان کے وطنوں کی جانب بھیجا جا سکتا ہے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ اس ملک میں سلامتی کی صورتحال کیسی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ کسی مہاجر یا تارک وطن کو اس کے ملک واپس روانہ کرنے سے قبل یہ تصدیق کرنا البتہ ضروری ہے کہ اس کا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان برائے وسطی یورپ نے واضح کیا کہ معاش کی خاطر مہاجرت اختیار کرنے والے تارکین وطن کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ان کے مطابق اقوام متحدہ نے مہاجرت کے بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک ایسا نظام وضع کر رکھا ہے، جس سے آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس شخص کو حقیقی خطرات لاحق ہیں اور کون صرف اقتصادی مسائل کی خاطر ملک کو خیرباد کہتا ہے۔
بابر بلوچ کا کہنا تھا کہ کچھ یورپی ممالک میں معاش کی خاطر مہاجرت کرنے والے تارکین وطن کے ساتھ رویہ قابل اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ان افراد کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر سلوک کیا جانا چاہیے لیکن یورپی یونین کے مختلف ممالک میں اس حوالے سے مبینہ طور پر کچھ اختلافات ہیں، جس کے باعث یہ مسئلہ کچھ پیچیدہ ہو چکا ہے۔
یورپی ممالک میں شامی مہاجرین کو پناہ فراہم کیے جانے کے حوالے سے ایک اتفاق پایا جاتا ہے کیوں کہ یہ عرب ملک ہولناک خانہ جنگی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں سے اس تنازعے کے باعث اس ملک سے ساڑھے چار ملین سے زائد افراد ملک چھوڑ چکے ہیں جب کہ آٹھ ملین سے زائد اپنے ملک میں ہی گھر بدر ہو چکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں بابر بلوچ نے کہا کہ یورپی حکومتوں اور عوام کو سمجھنا چاہیے کہ خانہ جنگی اور دہشت گردی سے فرار ہو کر یورپ پہنچنے والے لوگ پہلے ہی ایک صدمے کا شکار ہیں اور ایک امن کی زندگی چاہتے ہیں۔ اس لیے یورپ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تناظر میں مہاجرین اور جرائم پیشہ افراد میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مجرموں کی بنیاد پر مہاجرین سے خوفزدہ ہونا درست بات نہیں ہے۔
بابر بلوچ کا کہنا ہے کہ یورپی سرحدوں کی بندش سے مہاجرین کا بحران حل نہیں ہو گا بلکہ اس میں مزید شدت آ جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ مہاجرت کے اسباب کا خاتمہ کرنا ہو گا اور ایسے ممالک، جو تنازعات کا شکار ہیں، وہاں امن قائم کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک دنیا میں امن قائم نہیں ہو گا، لوگ مہاجرت پر مجبور ہوتے رہیں گے۔