پاکستانی آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم، تنقید کا طوفان
17 نومبر 2022
آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کے حوالے سے خواجہ آصف کا اعتراف پاکستان کے کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین میں کچھ ابہام ہے، جس کو دور کرنے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
اشتہار
واضح رہے کہ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے آرمی ایکٹ میں ترامیم زیرغور ہیں۔ یہ ترامیم پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں ممکنہ طور پر کی جائیں گی اور یہ آرمی کے اسٹرکچر، کمانڈ اور ضوابط اور شرائط سے متعلق ہیں۔ بحث کا محور سیکشن 176 ہے، جس میں لفظ ریٹینشن اور استعفی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جنرل باجوہ اپنی سروس جاری رکھ سکیں گے۔
’مقصد توسیع نہیں ہے‘
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر سلیم ضیا کا کہنا ہے کہ حکومت کا مطمع نظر ابہام کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ جنرل باجوہ کو توسیع دی جا رہی ہے۔‘‘
مسلم لیگ ن سے ہی تعلق رکھنے والے سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ ان ترامیم کے دوسرے مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی طالبان کے حملوں میں شدت آ رہی ہے اور دہشت گردی کا ناسور دوبارہ سر اٹھا رہا ہے تو میرے خیال میں گورنمنٹ ممکنہ طور پر یہ دیکھ رہی ہے کہ کوئی ایمرجنسی والی صورتحال ہو سکتی ہے یا دہشت گردی مزید بڑھ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر کچھ افسران اہم ذمہ داریوں پر ہیں، تو ان مجوزہ ترامیم کو استعمال کر انہیں روکا جا سکتا ہے۔‘‘
اقبال ظفر جھگڑا نے بھی اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ جنرل باجوہ کو کوئی توسیع دی جا رہی ہے: ’’تاہم فوجی افسران کو ضرورت پڑنے پر ریٹائرمنٹ سے پہلے یا اس کے قریب تاہم حکم ثانی روکا جا سکتا ہے۔‘‘
منفی رجحان
کچھ دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ حکومت کی ایک خطرناک چال ہے اور اس سے ملک کو اور آرمی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں، ان سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکومت جی ایچ کیو، فوج اور وزارت دفاع کو بائی پاس کرنا چاہتی ہے اور کسی بھی افسر کو روکنے کا اختیار براہ راست وزیراعظم کے پاس آجائے گا اور وہ کسی بھی بنیاد پر اس افسر کو روک سکے گا۔‘‘
جنرل غلام مصطفی کے مطابق اس سے فوج کا مورال بھی گرے گا اور افسران کی ترقیاں بھی متاثر ہوں گی۔ غلام مصطفی کے خیال میں آرمی چیف کو اب کسی بھی صورت رکنا نہیں چاہیے: ’’جنرل باجوہ کو اگر حکومت روکنے کی کوشش بھی کرے، تو انہیں رکنا نہیں چاہیے۔ جنرل باجوہ خود برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مزید رکنا نہیں چاہتے اور مختلف گیریژنز کے دورے بھی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر حکومت ان کو روکنے کا کہتی ہے اور وہ رک جاتے ہیں، تو اس سے آرمی چیف اور فوج کے بارے میں اچھا تاثر پیدا نہیں ہوگا۔‘‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ مجوزہ ترا میم سیاست دانوں کے غیر دانشمندانہ رویے کی عکاس ہیں۔ دفاعی مبصر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ اس قانون سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یقیناﹰ اس سے بہت سارے آرمی افسران کی ترقیاں متاثر ہوگی، جس کا انتہائی منفی تاثر جائے گا۔ اس کے علاوہ اس فیصلے کے سیاست پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان کبھی دانشمندی سے کام نہیں لیتے۔ موجودہ فیصلہ بھی حکومت انتہائی غیر دانش مندانہ انداز میں کر رہی ہے اور اس کو نواز شریف کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ نواز شریف صاحب نے ماضی میں بھی انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلے کیے ہیں اور اس کے بھی منفی اثرات ہوں گے۔‘‘
اشتہار
’کوئی توسیع نہیں ملنی چاہیے‘
کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ توسیع دینے کا رجحان انتہائی منفی ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ تاثر ہے کہ وزیر اعظم باجوہ کو ایک اور توسیع دینے جا رہے ہیں اور ایک ڈپٹی آرمی چیف بھی ممکنہ طور پر مقرر کر سکتے ہیں، جو باجوہ کے بعد کمانڈ سنبھالے گا۔ میرے خیال میں ایسی کوئی بھی توسیع بہت منفی ہوگی۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کر کے اس توسیع کے سلسلے کو مستقل بند کرنا چاہیے اور تمام تقرریاں میرٹ اور سینیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیں۔‘‘
بشری گوہر کے مطابق آرمی کا ایک نظم وضبط ہے اور فوج کسی ایک جنرل کی محتاج نہیں ہونی چاہیے۔
آرمی قوانین، توسیع اور ریٹائرمنٹ
آرمی کے قوانین سے واقفیت رکھنے والے قانونی ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد واصف خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آرمی کے قوانین میں ہر افسر کی عمر اور ریٹائرمنٹ کا ٹائم اس کے عہدے اور مرتبے کے حوالے سے متعین تھا۔ اس طرح کے قوانین سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کے آرمی چیف تک سب کے لیے تھے۔ لیکن جنرل ضیاء، جنرل مشرف اور دوسرے آمروں نے آرمی ریگولیشنز سے وہ شقیں حذف کرا دیں، جو آرمی چیف سے متعلق تھیں اور خود اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے۔‘‘
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
بریگیڈیئر واصف کے مطابق آرمی کے قوانین میں ہے کہ اگر کوئی افسر ریٹائرمنٹ کے قریب ہے، تو اس کے ریٹائرمنٹ کے عمل کو تیز کیا جائے اور اس کے حوالے سے غیر معمولی اقدامات بھی لیے جاسکتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے ریٹائر ہو سکے: ’’تاہم اگر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں یا ایمرجنسی والی صورتحال ہو تو پھر آرمی چیف کی سفارش پر کسی بھی افسر کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا سکتی ہے لیکن اس کی منظوری وفاقی حکومت ہی دیتی ہے۔‘‘