1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی ایف سولہ طیاروں کے لیے امریکی سپورٹ منظور

27 جولائی 2019

واشنگٹن نے پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کے لیے 125 ملین ڈالر کی تکنیکی معاونت کی منظوری کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی بھارت کے سی سترہ ٹرانسپورٹ طیاروں کی انتظامی مدد کے لیے 670 ملین ڈالر کے تعاون کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

Afghanistan U S Air Force F 16 Kampfjet
تصویر: Imago/StockTrek Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان کے ایف سولہ جنگی طیاروں کے لیے آلات اور انتظامی  مدد کے لیے 125 ملین ڈالر مالیت کی ایک ڈیل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ ایک اور ڈیل کے تحت واشنگٹن نے بھارت کے سی سترہ ٹرانسپورٹ  طیاروں کے پرزوں اور انتظامی مدد کے لیے 670 ملین ڈالر کے ایک معاہدے کو بھی منظور کیا ہے۔

جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ ان معاہدوں کی منظوری امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جمعے کو  دی جب کہ امریکی محمکہ دفاع کی سکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے اس کا اعلان کیا۔ پاکستان  کے ساتھ یہ ڈیل کو ایک ایسے وقت کی گئی ہے، جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کچھ دن قبل ہی واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔

امریکی محکمہ دفاع کے بیان کے مطابق پاکستان کے ان جنگی طیاروں سے متعلق یہ تازہ ڈیل دراصل اسلام آباد کے لیے امریکا کی ٹیکنیکل اور انتظامی تعاون کا حصہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ڈیل امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے مفادات کے مطابق ہے اور اس کی باقاعدہ نگرانی کی جائے گی۔

امریکی حکام کے مطابق بھارت نے واشنگٹن سے کہا تھا کہ وہ بوئنگ سی سترہ مسافر طیاروں کے پرزے اور ٹیسٹ کے آلات خریدنا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی دیگر مدد کے ساتھ بھارت نے انفرادی تربیت حاصل کرنے کے حوالے سے بھی ایک درخواست کی تھی، جو امریکا نے منظور کر لی ہے اور اس کی مالیت چھ سو ستر امریکی ڈالر کے برابر ہے۔

امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق بھارت اور پاکستان کے ساتھ ان معاہدوں سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان دفاعی نوعیت کا زیادہ تر سامان امریکا سے ہی خریدتا ہے جبکہ پاکستان کے پاس موجودہ ایف سولہ جنگی طیارے بھی امریکی ساختہ ہی ہیں۔

ع ب / ش ح / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں