پاکستانی ایوان بالا کے انتخابات
12 جنوری 2009حکمران پیپلز پارٹی نے اہم آئینی اورقانو نی امور پر قا نون سازی یہ کہہ کر موخر کررکھی ہے کہ اسے سو رکنی ایوان بالا یعنی سینٹ میں اکژ یت حاصل نہیں اورماضی میں پی پی پی کے دونوں ادوارمیں بھی سینٹ میں اقلیّت ہی کے باعث سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو، جنرل ضیاءالحق کے متعارف کردہ متنازعہ اسلامی قوانین کو نہ چھیڑسکیں۔ تاہم مارچ میں پچّاس سینٹروں کے ریٹائر ہونے کے بعد ذیادہ ترنشستیں پی پی پی کے حصّے میں آ جائیں گی لیکن کیا اکثریت حا صل کرنے کے بعد بھی پی پی پی دوسری جماعتوں کو آئینی ترامیم پر آمادہ کرسکے گی۔
اس حوالے سے ایم کیوایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا ہے کہ یہ تمام سیاسی جماعتوں کام ہے کہ وہ کسی بڑی پارٹی کی اکژیت سے مرعوب ہوئے بغیراسے اہم امور پر قانون سازی کے لیے مجبور کریں۔ فاروق ستارکے بقول ایم کیوایم نے آئین میں اٹھارویں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میںجمع کرا دیا ہے جس میں صوبوں کو خود مختا ری دینے اور پارلیما ن کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
َخیال رہے کہ ریٹائر ہونے والے سینٹروں میں مسلم لیگ (ق) کے مشاہدحسین، وزیر قانون فاروق نائیک، اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ اور مولانا سمیع الحق شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی نے سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوں سے درخواستیں بھی طلب کرلی ہیں اوراس کے ساتھ ہی سینٹ کی ٹکٹوں کی فروخت کے حوالے سے بھی چہ مگویئوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جمیعت علماء اسلام کے سینٹراعظم سواتی کا کہنا ہے کہ سینٹ کے طریقہء انتخاب میںتبدیلی لا کر مذکورہ تاثر سے چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق عام انتخابات اور صوبوں میں جماعتوں کی عددی برتری کے مطابق پیپلز پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ن)، ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی بھی پارلیمنٹ میں اپنی پوزیشن کو مظبوط کرنے میں کامیاب ھوجائیں گی۔