پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم خوراکی اور متوازن غذا کے فقدان کے باعث ایک سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں آئرن کی کمی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس خطرناک صورتحال سےنمٹنےکے لیے کیا اقدامات کیےجارہے ہیں؟ اس رپورٹ میں پڑھیے
اشتہار
چالیس سالہ صغریٰ بی بی کو اوستہ محمد کے واحد ہیلتھ کیئر سینٹر میں اپنی باری کا انتطار کرتے ہوئے دو گھنٹے ہونے والے تھے۔ کچھ عرصے قبل ان کی کم عمر بہو انیمیا کے باعث دوران زچگی انتقال کر گئی تھیں تب سے ننھے پوتے خیر محمد کی ذمہ داری ان پر ہے۔
اوستہ محمد ہیلتھ کیئر سینٹر کے ورکر ز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے علاقے میں ہر پانچ میں سے دو بچے آئرن کی کمی کے باعث لاغر پن کا شکار ہیں، ''پیدائشی طور پر کم وزن بچوں کی اکثریت پیدائش کے بعد ایک ماہ کے اندر انتقال کر جاتی ہے اور اگر وہ کسی طرح بچ بھی جائیں تو ان کی جسمانی و دماغی نشونما صحت مند بچوں کی نسبت انتہائی سست ہوتی ہے، جو ان میں اعصابی معذوری کا سبب بھی بنتی ہے۔‘‘
خیر محمد کی 16 سالہ ماں زچگی کے دوران انیمیا کا شکار تھیں۔ یہ مرض خون میں سرخ ذرات کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جسم میں ہیموگلوبن کی مقدار بہت کم ہو جاتی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکر کی سر توڑ کوشش کے باوجود گھر والے خاتون کے مرض کی نوعیت سمجھنے سے قاصر رہے کہ حاملہ خاتون کو زیادہ مقدار میں آئرن کی ضرورت ہے۔
خیر محمد ماں کے دودھ سے بھی محروم رہا لہذا گیارہ ماہ کا ہونے کے باوجود بمشکل بیٹھنے کے قابل ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ بچہ کسی اعصابی معذوری کا شکار ہو جائے گا۔
پاکستان میں یہ صورتحال کس قدر کشیدہ ہے؟
پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹک سوسائٹی کے ماہرین کے مطابق جسم میں آئرن اور دیگر مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی کے باعث سندھ کے بیشتر دیہی علاقوں خصوصا خیر پور، نوشہرو فیروز، سکھر وغیرہ میں بچوں میں چھوٹے قد کا غیر معمولی رجحان دیکھنے میں آیا ہے، جو لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں زیادہ ہے۔
2019ء میں ہونے والے پاکستان قومی سلامتی نیوٹریشن سروے کے مطابق صوبائی سطح پر سب سے زیادہ لاغر بچے فاٹا میں ہیں، جن کا تناسب 48 فیصد ہے۔ اس کے بعد بلوچستان 46 فیصد، گلگت بلتستان 46 فیصد، سندھ 45 فیصد، خیبر پختونخواہ 40 فیصد اور پنجاب 36 فیصد پر ہیں۔
افغانستان میں امدادی سامان کی شدید کمی
03:08
مجموعی طور پر پاکستان میں 50 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جس میں آئرن کی کمی سر فہرست ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری کے باعث والدین بچوں کو صحت مند خوراک دینے سے قاصر ہیں، جس میں تعلیم کی کمی کا بھی دخل ہے۔ زیادہ تر مائیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں، جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کس عمر تک بچوں کو کون سی غذا دینا ضروری ہے۔
بڑھتی ہوئی آئرن ڈیفی شینسی کی وجوہات کیا ہیں؟
معروف محقق اور ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بچوں میں لاغر پن کا براہ راست تعلق ماں کی صحت سے ہے،''دوران حمل اگر ماں کے جسم میں آئرن کی کمی ہو تو بچہ نحیف و لاغر ہو گا اور ماں کے انیمیا کا شکار ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوں گے۔‘‘
ڈاکٹر بھٹہ کے مطابق پاکستان میں آئرن ڈیفی شینسی سے ماؤں اور بچوں کی اموات کی شرح بڑھنے کا براہ راست تعلق غربت کے علاوہ قدامت پسندانہ سوچ سے بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو صحت کی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور دوران ِ حمل گھر والے بھی ان کا مناسب خیال بھی نہیں رکھتے۔
اشتہار
ماں کے دودھ کا متبادل کیا ہے؟
لیڈی ڈاکٹر عائشہ خان کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پیدائش کے بعد 4 سے 6 ماہ تک ماں کا دودھ پینے سے بچے انیمیا سے بچے رہتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں ٹھوس غذا سے آئرن دیا جاتا ہے، جس میں مختلف سیریلز، گوشت یا پھل شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اگر کسی وجہ سے ماں بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا سکتی تو ایک سال تک آئرن ملا دودھ پلانا ضروری ہے، جو ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کیا گیا ہو۔آئرن والے دودھ کے جو فارمولے بازار میں دستیاب ہیں ان میں سے بیشتر میں اتنا آئرن نہیں ہوتا، جس سے بچوں کی صحیح نشونما ہو سکے۔
دال کے متعدد طبی فوائد اور اہم حقائق
گھر کی مرغی دال برابر، یہ محاورہ دراصل دال کی اہمیت کو نظرانداز کرتا ہے۔ اصل میں مختلف اقسام کی دالیں غذا میں استعمال کرنے کے ان گنت طبی فوائد ہیں۔ جانیے دالوں کے بارے میں کچھ حقائق اور فائدے اس پکچر گیلری میں۔
گوشت کے مقابلے میں دالوں کی مختلف اقسام پکانا زیادہ آسان رہتا ہے اور اس کے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دالیں ذیابیطس سے بچاؤ، دل کے امراض کے خطرے کو کم کرنے، کولیسٹرول اور وزن کم کرنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہیں۔
تصویر: Global Pulse Confederation
غذائیت کا پاور ہاؤس
دالوں کے فوائد کی فہرست ختم نہیں ہوتی۔ دالیں کم چکنائی والے پروٹین کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں۔ ان میں فولاد، پوٹاشیم، میگنیشئم اور زنک جیسی قوت بخش اجزا شامل ہوتے ہیں۔
تصویر: ICARDA
لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ ڈائٹ فوڈ
کانگو، روانڈا، پاکستان اور بھارت سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں دالیں خوراک کا اہم ذریعہ ہیں۔ ان خطوں میں ایک تہائی کے قریب افراد اکثر غذائیت اور خون کی کمی جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں دالیں صارفین کے لیے ایک مقوی غذا ثابت ہوتی ہے۔
تصویر: Global Pulse Confederation
معیاری قیمت اور باآسانی میسر
مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی میں ترقیاتی معاشیات کی پروفیسر مائیوش ماریڈیا کے مطابق ترقی پذیر دنیا کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں دالوں کی ایک خاص حیثیت ہے۔ نہ صرف یہ مناسب غذائیت اور صحت سے متعلق فوائد فراہم کرتی ہیں بلکہ یہ گوشت اور دیگر زرعی صنعتوں کے مقابلے میں سستی اور خوراک کا ایک آسان ذریعہ ہیں۔ دالیں ماحولیاتی لحاظ سے بھی کم نقصان دہ ہیں۔
تصویر: Global Pulse Confederation
دالوں کا کوئی مقابلہ نہیں
اقوام متحدہ کے مطابق دودھ سے حاصل ہونے والے پروٹینز کی مقدار دالوں سے کافی کم قیمت میں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ سو گرم دال کی کاشت کے لیے صرف ایک سو ساٹھ لیٹر پانی درکار ہوتا ہے جبکہ اتنی ہی مقدار کے گوشت کے حصول کے لیے سات ہزار لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: ICARDA
دال کی کاشت کاری
دالوں کو اکثر ایسے علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے، جہاں آبپاشی یا کیمیائی کھاد تک رسائی نہ حاصل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دال کی فصل تقریبا ہر طرح کی زمین میں اگائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دال کی فصلیں قحط سالی اور سرد ماحول کا بھی مقابلہ کر سکتی ہیں۔
تصویر: ICARDA
صدیوں پرانی غذا
دالیں ہزاروں سالوں سے انسانی غذا کا حصہ رہی ہیں۔ اناطولیہ میں ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران چنے اور مسور کی دال کی پیداوار کے آثار ملے تھے۔ اس کے علاوہ مصر اور روم کے قدیم ادوار میں بھی دالوں کے استعمال کے شواہد مل چکے ہیں۔
تصویر: Photoshot/picture alliance
دال سے بنی رنگولی
زمین پر رنگ برنگی پیچیدہ ڈیزائن تشکیل دینا رنگولی کا فن کہلاتا ہے۔ اس فن کی شروعات بھارت میں ہوئی تھی۔ رنگولی کے فن پارے تیار کرنے کے لیے رنگین ریت، پھول کی پنکھڑیاں، چاول اور دال جیسی اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں دال اور چاول کے ساتھ بھارت کا پرچم تشکیل دے کر بھارتی کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی جا رہی ہے۔
تصویر: Debarchan Chatterjee/ZUMA/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
اس حوالے سے ڈوئچے ویلے نے پاکستان کے مختلف شہروں میں ماہر زچہ و بچہ سے رابطے کیے تو تقریبا تمام ڈاکٹرز کا موقف تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بچے کے لیے ماں کا دودھ بہترین ہوتا ہے، جس کا کوئی متبادل نہیں۔ اپنے پاس زیر علاج خواتین کو وہ یہی تنبیہ کرتی ہیں کہ کم از کم چھ ماہ تک بچے کو اپنا دوھ پلائیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں بچوں کو ماں کو دودھ دینے کے رجحان میں تیزی سے کمی آرہی ہے، جو ان میں انیمیا کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اعداد وشمار کیا بتاتے ہیں؟
2019ء میں آغا خان یونیورسٹی کی زیر نگرانی ہونے والے قومی سلامتی نیوٹریشنل سروے کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد مائیں پیدائش سے پانچ ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ جبکہ 15 فیصد شوہر یا خاندان کی جانب سے دباؤ پر، 17 فیصد جزوی اور 20 فیصد سرے سے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں۔
جیلی فش، کم کیلوریز اور زیادہ پروٹین والی صحت مند خوراک
02:08
This browser does not support the video element.
ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کی سر کردگی میں ہونے والے اس سروے کے اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں یہ رجحان سب سے کم ہے، جہاں 69 صرف فیصد مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ یقینا اس کا تعلق اس خطے میں بد امنی، سیاسی انتشار، غربت اور صحت کی ناکافی سہولیات سے ہے، جس کے باعث بچوں کو بکری، گائے یا بھینسوں کا دودھ دیا جاتا ہے۔
حکومتی اقدامات کیا ہیں؟
ڈاکٹر عائشہ خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بچوں میں آئرن کی کمی دور کرنے اور انہیں انیمیا سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک خاص سپلیمنٹ دیا جاتا ہے، جسے "فیرس سلفیٹ" کہتے ہیں۔ اسے اگر وٹامن سی کے ساتھ دیا جائے تو بچے اسے باآسانی ہضم کر لیتے ہیں،''حکومت نے حال ہی میں پولیو اور کورونا وائرس ویکسینیشن مہمات کے ساتھ بچوں کو وٹامن اے کی خوراک بھی دی ہے، جس سے خوراک میں مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی سے پیدا ہونے والے امراض پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔‘‘
اس کے ساتھ ہی موجودہ حکومت نے حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں میں آئرن اور دیگر اہم مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی پر قابو پانے کے لیے احساس نشونما پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت مستحق خواتین و بچوں کو 1500 سے 2000 روپے 4 ماہ کے وقفے کے بعد جاری کیے جاتے ہیں۔
بلوچستان میں حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں میں اموات کی شرح زیادہ ہونے کے باعث پہلے مرحلے میں قلات، ژوب سمیت چھ ڈسٹرکٹس میں امدادی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے احساس نشونما پروگرام کی رجسٹریشن اور رقم کا حصول بہت آسان ہو گیا ہے۔ یہ سینٹرز خواتین کو چھ ماہ سے پانچ سال کے بچوں کی خوراک کے اہم اجزاء جیسے گوشت، پھلیاں، دالیں اور زیادہ آئرن والی سبزیوں وغیرہ سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان معدنی نمک سے مالامال ملک
نمک انسانی غذائیت کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی معدنی شے ہے۔ یہ بنیادی طور پر سوڈیم کلورائیڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ پاکستان بھی معدنی نمک سے ایک مالا مال ملک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Omer Saleem
پاکستان میں معدنی نمک کے بڑے اور وسیع ذخائز موجود ہیں۔ پاکستان میں کھیوڑہ کی کان دنیا کی دوسری بڑی آپریشنل کان ہے اور یہ تین سو سے زائد کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Omer Saleem
پاکستان میں پائی جانے والی کانوں میں کھیوڑہ (جہلم)، واڈچھا(خوشاب)، کالاباغ (میانوالی) اور بہادرخیل (کرک) کے نام سرفہرست ہیں۔ان علاقوں میں موجود پہاڑوں سے معیاری اور عمدہ قسم کا نمک حاصل کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Danish Baber
خیبر پختون خوا کے ضلع کرک میں بہادر خیل میں موجود نمک کے کان سے حاصل کیا جانے والا نمک اٹھانوے فیصد خالص ہے۔ اس علاقے سے لال، خاکی اور کالے رنگ کیا نمک بھی حاصل کی جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Danish Baber
بہادرخیل کے نام سے مشہور کرک کے ان کانوں سے نمک ابھی تک فرسودہ طریقوں سے حاصل کیا جار رہا ہے۔ علاقے کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بارود اور دھماکوں کی وجہ سے ناصرف وافر مقدار میں نمک ضائع ہورہی ہے بلکہ نمک کے آلودہ اور مضر صحت ہونے کے بھی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Baber
پاکستان منرل ڈویلوپمنٹ کارپوریشن کے مطابق ان کانوں سے حاصل کیا جانے والے نمک کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور وقفے وقفے سے اس کے نمونے جانچ کے لیے لیبارٹری بھی بھجوائے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Baber
گزشتہ پینتالیس برسوں سے نمک کی کان میں کام کرنے والے عنایت اللہ خٹک کا کہنا ہے کہ وہ اس کان میں سات ہزار روپے ماہانہ پر مزدوری کر رہا ہے۔ اصل میں یہ پہاڑ ان کے قبلے کی ملکیت ہے لیکن اب حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور حکومت باقاعدگی سے ان کے لوگوں کو پچیس فیصد حصہ دینے کی پابند ہے۔
تصویر: DW/Danish Baber
چونکہ علاقے کے زیادہ تر لوگوں کا دار و مدار ان نمک کی کانوں پر ہے، لہذا آس پاس کے علاقوں میں درجنوں نمک کی چھوٹی بڑی چکیاں ہیں، جس میں نمک کو پیسنے کا کام کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Danish Baber
نمک کی چکیوں یا کارخانوں میں مضافاتی بہادر خیل کان سے نمک کے چھوٹے بڑے ٹکڑے ٹریکٹرز اور گدھا گاڑیوں کی مدد سے لائے جاتے ہیں، جس کے بعد ان کو پہلے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور پھر مشینوں کے ذریعے ان کو پیس کر استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ ان کارخانوں میں بڑوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں چھوٹے بچے بھی مزدوری کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Baber
پیسنے کے بعد نمک کو محتلف سائز اور رنگوں کے تھیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔ کارخانہ مالکان کے مطابق نمک کے کاروبار میں روز بروز کمی آرہی ہے کیونکہ اب زیادہ تر لوگ آیوڈین ملا نمک کا استعمال کرنے لگے ہیں،اور ان لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ان کا مقابلہ کر سکیں۔
تصویر: DW/Danish Baber
ارشاد خٹک کہتے ہیں کہ نمک کے کاروبار کے ساتھ ان کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ ان کے دادا کے بعد ان کے والد نمک کی کان میں کام کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے علاقے کے یہ قیمتی ذخائر ضائع ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Baber
بہادر خیل سے حاصل کیا جانے والا نمک ناصرف اندرونی ملک میں محتلف علاقوں تک سپلائی کیا جاتا ہے بلکہ پاکستان منرل ڈویلوپمنٹ کارپوریشن کے مطابق اس نمک کو افعانستان، ملائشیا اور دیگر ممالک میں بھی برآمد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Danish Baber
بہادر خیل کان کے قدرتی مناظر لوگوں کے دلچسپی کا مرکز بھی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل اور کراچی روڈ پر واقع اس علاقے سے گزرنے والے ہزاروں لوگ ان قدرتی مناظر کو دیکھنے کے لیے وہاں مختصر قیام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Baber
گو کہ ضلع کرک کی بہادر خیل مائنز، کھیوڑہ کی کانوں کے برابر حکومت کی توجہ حاصل نہیں کر سکیں لیکن یہاں کے کاریگروں کے ہاتھ سے نمک سے بنائی گئی مختلف زیبائشی اشیاء اپنی مثال آپ ہیں۔