پاکستانی بینک اور ان کے صارفین ان دنوں ملکی تاریخ کے ’سب سے بڑے سائبر حملے‘ کی زد میں ہیں اور مجموعی طور پر دو درجن کے قریب بینکوں کا ڈیٹا چوری ہو جانے کی خبروں نے ملک کے اقتصادی حلقوں میں ایک طوفان بپا کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Marchi
اشتہار
دوسری طرف حکومت خاموش ہے مگر ملک کے مرکزی بینک نے کئی دن بعد ان خبروں کی جزوی تردید کرتے ہوئے صرف یہ اعتراف کیا ہے کہ محض ایک بینک کا ڈیٹا چوری ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہیکرز نے 22 بینکوں کے جاری کردہ 19 ہزار سے زائد ڈ یبٹ اور کریڈٹ کارڈز کا ڈیٹا چوری کیا ہے، جو ڈارک ویب کی ایک سائٹ پر فروخت کے لیے موجود ہے۔
باخبر ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی بینکوں کے ایسے صارفین کے ویزا کارڈز اور ماسٹر کارڈز سو سے لے کر 160 ڈالر تک میں فروخت ہو رہے ہیں۔
روپیہ: پاکستان کے علاوہ اور کہاں کہاں چلتا ہے
روپیہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک کی کرنسی بھی ہے۔ تاہم ان میں ہر ایک ملک کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مختلف ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کن ممالک میں روپیہ زیر گردش ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
پاکستان
برصغیر کی تقسیم کے فوری بعد پاکستان نے برطانوی دور کے نوٹ اور سکے ہی استعمال کیے، صرف ان پر پاکستان کی مہر لگا دی گئی۔ تاہم 1948سے پاکستان میں نئے نوٹ اور سکے بننے لگے۔ پاکستانی نوٹوں پر میں ملک کے بانی محمد علی جناح کی تصویر چھپی ہوتی ہے۔
تصویر: AP
بھارت
روپیہ سنسکرت کے لفظ روپيكم سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چاندی کا سکہ۔ روپے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز حکومت کے روپیہ کے علاوہ کئی ریاستوں کی اپنی کرنسیاں بھی تھیں۔ لیکن 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد روپے کو پورے ملک میں بطور کرنسی لاگو کر دیا گیا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
سری لنکا
سری لنکا کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہی ہے۔ 1825میں برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی سرکاری کرنسی بنا۔ اس سے پہلے وہاں سيلونيج ركسڈلر نام کی کرنسی چلتی تھی۔ انگریز دور میں کئی دہائیوں تک برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی کرنسی بنا رہا جسے اس وقت سیلون کہا جاتا تھا۔ لیکن یکم جنوری 1872 کو وہاں روپیہ سرکاری کرنسی کے طور پر اپنایا گیا۔
بھارت کے پڑوسی ملک نیپال کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہے جو 1932 سے زیر استعمال ہے۔ اس سے پہلے وہاں چاندی کے سکے چلتے تھے۔ نیپال میں سب سے بڑا نوٹ ایک ہزار روپے کا ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
ماریشس
ماریشس میں پہلی بار 1877 میں نوٹ چھاپے گئے تھے۔ شروع میں وہاں پانچ، دس اور 50 روپے کے نوٹ چھاپے گئے۔ تاہم 1919 سے ایک روپے کے نوٹ بھی چھاپے جانے لگے۔ ماریشس میں بڑی تعداد میں ہندوستانی نژاد لوگ آباد ہیں۔ اسی لیے کسی بھی نوٹ پر اس کی قیمت بھوجپوری اور تامل زبان میں بھی درج ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
انڈونیشیا
انڈونیشیا کی کرنسی رُپياه ہے جس کا اصل روپیہ ہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے کم قدر ہونے کی وجہ سے انڈونیشیا میں بڑی مالیت کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا نوٹ ایک لاکھ رپياه کا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Indahono
سیشیلز
بحر ہند کے ایک جزیرے پر مشتمل ملک سیشیلز کی کرنسی بھی روپیہ ہی ہے۔ وہاں سب سے پہلے روپے کے نوٹ اور سکے 1914میں چھاپے گئے تھے۔ سیشیلز بھی پہلے برطانوی سلطنت کے تابع تھا۔ 1976میں اسے آزادی ملی۔ سمندر میں بسا یہ ملک اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
7 تصاویر1 | 7
26 اکتوبر 2018 کو ڈارک ویب پر 9 ہزار ڈیبٹ کارڈز کا ڈیٹا ڈالا گیا تھا، جن میں سے اکثر کارڈز پاکستانی بینکوں کے جاری کردہ تھے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر صرف بینک اسلامی کا نام ہی سامنے آیا، مگر اس ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا میں پاکستان کے آٹھ دیگر بینکوں کے ہزاروں صارفین کے بینک کارڈز کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔
ان ذرائع کا دعوٰی ہے کہ بظاہر ہیکرز نے ڈیٹا اے ٹی ایم مشینوں اور مختلف دکانوں پر لگی مشینوں میں گڑ بڑ کر کے حاصل کیا ہے۔ یہ شبہ بھی ہے کہ یہ کام گزشتہ برس اسی وقت کیا گیا تھا، جب چینی باشندے اے ٹی ایم مشینوں میں جعلسازی کرکے رقوم نکالتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔
ذرائع کےمطابق یہ ہیکرز کارڈز کے ڈیٹا فارمیٹ کے کاپی بنا کر اسے کسی بھی اسٹور، کیشن مشین یا شاپنگ کارڈز کی صورت میں استعمال کرسکتے ہیں۔
پاکستانی بینکوں کا ڈیٹا چوری ہونے کی خبروں نے اسٹیٹ بینک کے سائبر سکیورٹی نظام کی قلعی بھی کھول دی ہے اور موجودہ صورت حال اسٹیٹ بینک کی تکنیکی کارکردگی سے متعلق متعدد سوالات کی وجہ بھی بن رہی ہے۔
اس کے برعکس اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کے مرکزی بینک نے ڈیٹا چوری ہونے کی خبروں کا نوٹس لیا ہے اور عابد قمر پورے وثوق سے کہہ سکتےہیں کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
سن 2030 میں پاکستانی شہروں کی متوقع آبادی
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2047 میں پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں آباد انسانوں کی تعداد برابر ہو جائے گی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے بارہ برس بعد پاکستانی شہروں کی آبادی کتنی ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1- کراچی
کراچی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سن 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چون لاکھ ہے جو سن 2030 تک دو کروڑ بتیس لاکھ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں سب سے بڑا شہر بھی ہو گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
2- لاہور
پاکستانی صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ایک کروڑ سترہ لاکھ نفوس کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک لاہور کی آبادی قریب دو کروڑ ہو جائے گی۔ پچاس کی دہائی میں لاہور کے شہریوں کی تعداد آٹھ لاکھ چھتیس ہزار تھی اور وہ تب بھی پاکستان کا دوسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
3- فیصل آباد
فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور بارہ برس بعد بھی آبادی کے اعتبار سے یہ اسی نمبر پر رہے گا۔ تاہم فیصل آباد کی موجودہ آبادی 3.3 ملین ہے جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 تک قریب پانچ ملین ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
4- پشاور
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی موجودہ آبادی بھی دو ملین سے کچھ زائد ہے اور اس وقت یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر بھی ہے۔ تاہم سن 2030 میں اس شہر کی آبادی قریب تینتیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہو گی اور یہ ملک کا چوتھا بڑا شہر بن جائے گا۔
تصویر: DW/F. Khan
5- گوجرانوالہ
سن 1950 میں گوجرانوالہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا نواں سب سے بڑا شہر تھا تاہم اب یہاں دو ملین سے زائد لوگ بستے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بارہ برس بعد اس شہر کی آبادی بتیس لاکھ چونسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی اور یہ ملک کا پانچواں بڑا شہر ہو گا۔
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images
6- راولپینڈی
اکیس لاکھ چھپن ہزار کی آبادی کے ساتھ راولپنڈی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ بارہ برس بعد راولپنڈی کی آبادی تین ملین سے زائد ہو جائے گی لیکن تب یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر ہو گا۔ 1950ء میں راولپنڈی کی آبادی دو لاکھ تینتیس ہزار تھی اور تب آبادی کے اعتبار سے یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/PPI
7- ملتان
ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی موجودہ آبادی قریب دو ملین ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 میں ملتان کی آبادی قریب انتیس لاکھ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
8- حیدر آباد
صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد سترہ لاکھ بیاسی ہزار نفوس کے ساتھ اس برس ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک اس شہر کی آبادی چھبیس لاکھ تیس ہزار ہو جائے گی اور وہ تب بھی ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہی ہو گا۔
تصویر: Imago/Zumapress
9- اسلام آباد
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی موجودہ آبادی ایک ملین سے زائد ہے تاہم اگلے بارہ برسوں میں سولہ لاکھ بہتر ہزار نفوس کے ساتھ یہ شہر ملک کا نواں بڑا شہر بن جائے گا۔ رواں صدی کے آغاز میں اسلام آباد کے شہریوں کی تعداد پانچ لاکھ انہتر ہزار تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Reza
10- کوئٹہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی رواں برس ہی ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ بارہ برس بعد کوئٹہ کی آبادی سولہ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ جب کہ سن 1950 میں کوئٹہ کی آبادی 83 ہزار تھی۔
تصویر: shal.afghan
11- بہاولپور
پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر بہاولپور کی آبادی بھی اگلے چند برسوں میں ایک ملین سے زیادہ ہو جائے گی اور سن 2030 تک یہاں کی آبادی بارہ لاکھ چھیالیس ہزار نفوس تک پہنچ جائے گی۔ رواں برس کی آبادی سات لاکھ چھیانوے ہزار ہے جب کہ 1950 میں بہاولپور کی آبادی محض بیالیس ہزار تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12- سیالکوٹ
صوبہ پنجاب ہی کے شہر سیالکوٹ کی آبادی بھی اگلے بارہ برسوں میں ایک ملین سے زائد ہو جائے گی۔ اس برس تک سیالکوٹ چھ لاکھ چھہتر ہزار نفوس کے ساتھ ملک کا تیرہواں بڑا شہر ہے۔ 1950ء میں سیالکوٹ کی آبادی ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔
تصویر: Reuters
13- سرگودھا
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صوبہ پنجاب کی آبادی بھی سن 2030 میں ایک ملین سے کچھ کم (نو لاکھ نوے ہزار) تک پہنچ جائے گی۔ اس برس یعنی 2018ء میں سرگودھا کی آبادی چھ لاکھ 77 ہزار ہے اور یہ ملک کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ سن 1950 میں یہاں صرف چوہتر ہزار شہری مقیم تھے۔
تصویر: Reuters/Stringer
14- لاڑکانہ
صوبہ سندھ ہی کے شہر لاڑکانہ کی موجودہ آبادی پانچ لاکھ چھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو اب سے بارہ برس بعد سات لاکھ بیاسی ہزار تک پہنچ جائے گی۔ 1950 میں لاڑکانہ کی آبادی محض تینتیس ہزار تھی۔
تصویر: AP
15- سکھر
سن 2030 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع شہر سکھر کی آبادی سات لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔ سن 1950 میں اس شہر کی آبادی محض چھہتر ہزار نفوس پر مشتمل تھی جب کہ رواں برس سکھر کی آبادی پانچ لاکھ چودہ ہزار ہے۔
تصویر: DW
15 تصاویر1 | 15
انہوں نے کہا، ’’اسٹیٹ بینک کے پاس ایسے کوئی شواہد موجود ہیں۔ نہ ہی کسی بینک یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کی جانب سے ایسی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ 27 اکتوبر کو ہیکرز نے بینک اسلامی کے آئی ٹی سیکورٹی نیٹ ورک کو ہیک کیا تھا لیکن اس کے بعد ایسا کوئی اور واقعہ پیش نہیں آیا۔‘‘
ماہرین کے مطابق ایک جانب تو اسٹیٹ بینک ڈیٹا چوری ہونے کی خبروں کی تردید کر رہا ہے لیکن دوسری جانب صارفین کو ڈیٹا چوری ہونے کی صورت میں فوری طور پر اپنے اے ٹی ایم اور ڈیبٹ کارڈز کے پن کوڈ تبدیل کرنے کی تجاویز بھی دی جا رہی ہیں۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
ذرائع کے بقول صارفین سے یہ اپیل بھی کی جا رہی ہے کہ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ حفاظتی تدابیر پر عمل کیا جائے اور ڈیٹا چوری ہونے کے علاوہ بھی ان ہدایات پر عمل کر تے ہوئے عام صارفین اپنے بینک اکاؤنٹس کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں کاروبار کرنے والے مختلف بینکوں کی جانب سے بھی سائبر حملے کے خطرے کے پیش نظر مختلف حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کچھ بینک اپنے اپنے آئی ٹی سسٹم کی سکیورٹی کے حوالے سے پر اعتماد ہیں اور وہ حسب معمول بذریعہ کارڈ لین دین کی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم کچھ بینکوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بین الاقوامی ادائیگیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی بینکوں کے آئی ٹی سسٹم اسٹیٹ بینک کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہوتے ہیں اور موجودہ صورت حال میں واضح ہوگیا ہے کہ اس مرکزی مالیاتی ادارے کا مانیٹرنگ سسٹم پرانا اور کمزور ہو چکا ہے۔
ان حالات میں ایک اور فریق ایف آئی اے بھی ہے، جس کا سائبر کرائمز سرکل اس حوالے سے اپنی تحقیقات شروع کر چکا ہے۔ تاہم ایف آئی اے پہلے ہی منی لانڈرنگ کے لیے نجی بینکوں میں جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش میں مصروف ہے اور ملک بھر میں کئی ایسے بینک اکاؤنٹس سامنے آ چکے ہیں، جن میں معمولی نوعیت کی ملازمتیں یا کاروبار کرنے والے افراد کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی رقوم منتقل کی گئی تھیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان بہت بڑی ٹرانزیکشنز کی خود اکاؤنٹ ہولڈرز کو کوئی خبر ہی نہیں تھی۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کیپٹن (ریٹائرڈ) شعیب احمد نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ہیکرز بینکوں کا ڈیٹا چوری کرنے کے لیے مسلسل حملے کر رہے ہیں اور اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کو تحریری طور پر آگاہ بھی کیا گیا ہے تاہم ابھی تک اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بھارت میں ’بڑے نوٹ‘ بند، عوام پریشان
بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں کی بندش کے اعلان کے بعد شہری پرانے نوٹ تبدیل کروانے کی الجھن کا شکار ہیں اور بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں دکھائی دے رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
بھارتی بینکوں کے کاؤنٹروں پر اژدھام
پرانے نوٹوں کی بندش اور تبدیلی کے لیے دستیاب قلیل وقت کے سبب مختلف بینکوں کے سامنے لوگوں کی بہت بڑی تعداد جمع دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
بینکوں کے باہر لمبی قطاریں
خواتین اور بزرگ شہریوں سمیت عام لوگ لمبی لمبی قطاروں میں پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کرانے کے لیے بینکوں کے باہر کھڑے نظر آتے ہیں۔ بعض شہری انتہائی ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے بھی اپنے پاس پیسے نہ ہونے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
ادائیگی شناخت کے بعد
حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹ تبدیل کروانے کے لیے ہر شخص کی شناخت کے بعد ہی اسے نئے کرنسی نوٹ دیے جائیں گے۔ حکومت اس طریقے سے کالے دھن کا خاتمہ چاہتی ہے، تاہم عام شہریوں کی پریشانی کے پیش نظر اس حکومتی اقدام پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Prakash
بینکوں کے باہر شب بسری
بعض بینکوں کے باہر جلد اپنی باری کے لیے لوگ رات ہی کو آن کر بسیرا کر لیتے ہیں، تاکہ اگلی صبح انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
باری آتی ہی نہیں
کئی بینکوں کے باہر شہریوں کی قطاریں اتنی طویل ہیں کہ لوگ اپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں اور بعض صورتوں میں تو پورا پورا دن کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔