پاکستانی تارکِ وطن محمد اجمیر وطن واپس کیوں جانا چاہتا ہے؟
17 مئی 2017بہروز اسدی کا دفتر جرمنی میں مائینز کے مرکزی ریلوے اسٹیشن سے کچھی ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اسدی، مہاجرین کو مشاورت فراہم کرنے والی ایک کیتھولک ریلیف تنظیم’ مالٹےزر ویرکے‘ میں بطور کونسلر کام کرتے ہیں۔ مائینز سٹی ہال میں واقع اسدی کے دفتر تک ایسے مہاجرین کی رسائی ہے جو اپنے وطن واپس جانے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پانچ ایسے تارکینِ وطن جو اپنے ملکوں کو واپس جانا چاہتے ہیں، اسدی کے آفس میں معلومات حاصل کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔
ان پناہ گزینوں میں چار افراد پر مشتمل ایک افغان خاندان اور ایک پاکستانی تارکِ وطن محمد اجمیر شامل ہیں۔ یہ پانچوں افراد اسدی سے معلوم کرنے آئے ہیں کہ آیا اُن کی رضاکارانہ طور پر واپس جانے کی درخواستیں منظور ہو گئی ہیں؟ اور یہ کہ وہ کب تک اپنے ملک واپس جا سکیں گے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے محمد اجمیر کا کیس اس تناظر میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اجمیر نے یورپ آنے کے لیے انسانی اسمگلروں کو آٹھ ہزار ڈالر ادا کیے تھے جو اُس نے لوگوں سے قرض لیے تھے۔ محمد اجمیر نے مہاجرین کے بحران کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھنے والی یورپی ویب سائٹ انفو امیگرنٹ کو بتایا، ’’میرا خیال تھا کہ یورپ میں ملازمت کے امکانات اچھے ہوں گے اور میں بہتر روزگار حاصل کر سکوں گا۔ لیکن یہاں جب مجھے لوگوں نے بتایا کہ پاکستانیوں کو پناہ ملنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں تو میں نے جرمن زبان سیکھنے یا کوئی اور کام کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔‘‘
محمد اجمیر نے بتایا کہ وہ پاکستان واپس جانا چاہتا ہے کیونکہ وہاں اُس کی والدہ بہت بیمار ہیں اور وہ گھر میں سب سے بڑا ہے۔
اجمیر کو اُس کے ویزا اسٹیٹس کی وجہ سے کام کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ اجمیر کی واحد امید اب یہ ہے کہ مائینز آفس سے اُس کی وطن واپسی کی درخواست منظور ہو جائے تاکہ وہ یہاں سے ملنے والی رقم کے ساتھ پاکستان میں کوئی کاروبار کر سکے۔
پاکستان واپسی کے لیے دائر اجمیر کی درخواست کو اب تین ماہ ہو چلے ہیں۔ اجمیر نے اسدی سے کہا، ’’برائے مہربانی کیا آپ متعلقہ حکام سے کہہ سکتے ہیں کہ میری درخواست کو ذرا جلدی نمٹا دیا جائے؟‘‘