پاکستانی تارکین وطن کو ترکی سے بھی واپس بھیجنے کا فیصلہ
شمشیر حیدر8 اپریل 2016
ترک پارلیمان نے سات اپریل کو نصف شب کے بعد تک جاری رہنے والے اپنے اجلاس میں فیصلہ کر لیا کہ یونان سے واپس ترکی بھیجے گئے پاکستانیوں سمیت ترکی اپنے ہاں سے غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو ملک بدر کر کے واپس بھیج دے گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جمعہ آٹھ اپریل کو انقرہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ترک پارلیمان نے ایک ایسے معاہدے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت انقرہ حکومت اب اس ملک سے پاکستانی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کر کے واپس پاکستان بھیج سکے گی۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ ایک معاہدے کے مطابق ترکی سے یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو اب واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر تحفظات کے اظہار کے باعث کسی حد تک ’متنازعہ‘ قرار دیے جانے والے اس ترک یورپی معاہدے پر عمل درآمد پیر چار اپریل سے شروع ہوا تھا۔
یونان میں پاکستانی تارکین وطن: موقف اور مجبوریوں کی وضاحت
گزشتہ پیر کے روز 200 سے زائد تارکین وطن کو یونان سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ ان میں 124 پاکستانی بھی شامل تھے۔ آج جمعے کے روز اسی معاہدے پر عملدرآمد کے تسلسل میں ایسے مزید 45 پاکستانی شہریوں کو واپس ترکی بھیج دیا گیا، جو بحیرہ ایجیئن کے خطرناک سمندری راستے سے غیر قانونی طور پر یونانی ساحلوں تک پہنچے تھے۔
انقرہ اور برسلز کے مابین اس معاہدے کے تحت غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے ایسے تمام تارکین وطن کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے، جنہوں نے یورپی یونین کے رکن اس ملک میں اب تک سیاسی پناہ کی کوئی درخواستیں نہیں دیں۔
اس معاہدے کے مطابق یونان سے ملک بدر کیے گئے ہر شامی مہاجر کے بدلے ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں میں سے ایک کو یورپ لا کر پناہ دی جانا ہے۔ اب تک ترکی سے ایسے شامی مہاجرین کے دو گروپ جرمنی اور فن لینڈ پہنچ چکے ہیں۔
ترک وزیر داخلہ افکان آلا نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کھل کر کہا تھا کہ یونان سے واپس آنے والے شامی مہاجرین کو تو ملک بھر میں مختلف کیمپوں میں منتقل کر دیا جائے گا تاہم پاکستان، افغانستان اور عراق سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی تارکین وطن کو ایک بار پھر ڈی پورٹ کر کے ترکی سے ان کے ملکوں میں بھیج دیا جائے گا۔
ترکی اور افغانستان کے مابین غیر قانونی تارکین وطن کو واپس لینے کا معاہدہ پہلے ہی سے موجود ہے جبکہ انقرہ میں قومی پارلیمان کی طرف سے منظوری کے بعد اب ترکی سے پاکستانیوں کی جلد ملک بدری بھی ممکن ہو گئی ہے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔