پاکستانی تارک وطن علی حسن فرانس میں مسلح حملہ آور کیسے بنا؟
8 اکتوبر 2020
کئی دیگر پاکستانیوں کی طرح بہتر مستقبل کے خواب لیے علی حسن جب اسمگل ہو کر یورپ پہنچنے کے لیے پاکستان سے نکلا تھا تو اس کی عمر صرف پندرہ برس تھی۔ آج قریب تین سال بعد وہ شدت پسندی کے شبے میں پیرس کی ایک جیل میں قید ہے۔
اشتہار
علی حسن نے جب پاکستان چھوڑ کر پناہ کے متلاشی ایک نوجوان کے طور پر یورپ میں آباد ہونے کا سوچا تھا، تو وہ اپنے بھائی کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔ ہر سال ہزاروں پاکستانی ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت یہ نوجوان فرانسیسی دارالحکومت کی ایک جیل میں ہے، اس لیے کہ اس نے 25 ستمبر کو پیرس میں گوشت کاٹنے والی ایک چاپڑ کے ساتھ حملہ کر کے دو افراد کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
اس حملے سے قبل اس نے ایک ویڈیو پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ فرانسیسی طنزیہ جریدے شارلی ایبدو میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلام کے خاکوں پر رنجیدہ تھا اور بدلہ لینا چاہتا تھا۔
فرانس میں قیام کی زیادہ تفصیلات کی عدم دستیابی
علی حسن نے اس حملے سے پہلے تک فرانس میں جو وقت گزارا تھا، اس کی بہت کم تفصیلات دستیاب ہیں۔ اس کی عمر کے بارے میں بھی کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ لیکن خبر رساں ادارے اے پی کی طرف سے کی گئی چھان بین اور پاکستان میں اس کی ذات سے متعلق سرکاری دستاویزات دیکھنے کے بعد اس نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ علی حسن کی عمر اس وقت 18 برس ہے۔
فرانسیسی تفتیشی ماہرین گزشتہ ماہ کے اواخر میں کیے جانے والے اس حملے کی ایک 'مسلم شدت پسندانہ کارروائی‘ کے طور پر چھان بین کر رہے ہیں۔ اس حملے نے جنوری 2015ء میں کیے جانے والے اس حملے کی یاد تازہ کر دی تھی، جب اسی فرانسیسی جریدے کے دفاتر پر کیے جانے والے حملے میں عسکریت پسندوں نے شارلی ایبدو کے 12 کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان عسکریت پسندوں نے کہا تھا کہ وہ یہ خونریز کارروائی دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ایما پر کر رہے تھے۔
اب تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ علی حسن کا کسی دہشت گرد گروپ کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ اس کے برعکس تفتیشی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ غصے سے بھرا ہوا ایک ایسا نوجوان ہے، جس نے اپنے وطن سے دور فرانس میں یہ حملہ دراصل ایک ایسی دنیا میں کیا، جس سے وہ واقف ہی نہیں تھا، اور اس کے محرکات میں بظاہر پاکستان کا توہین مذہب سے متعلق بہت سخت قانون بھی ہے۔
2019 میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2019 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: Reuters/E. Su
1۔ افغانستان
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2۔ عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست رہنے کے بعد دوسرے نمبر پر آیا۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2018ء کے دوران عراق میں دہشت گردی کے 1131 واقعات پیش آئے جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 57 فیصد کم ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 75 فیصد کمی دیکھی گئی۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور 9.24 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
3۔ نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.59 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 562 دہشت گردانہ حملوں میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 772 زخمی ہوئے۔ سن 2001 سے اب تک نائجیریا میں 22 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Stringer
4۔ شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش، حیات تحریر الشام اور کردستان ورکرز پارٹی کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 131 واقعات رونما ہوئے جن میں 662 انسان ہلاک جب کہ سات سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.0 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
5۔ پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 366 دہشت گردانہ واقعات میں 537 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ گزشتہ برس دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
6۔ صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے 286 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 646 افراد ہلاک ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.8 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
7۔ بھارت
اس برس کے عالمی انڈیکس میں بھارت آٹھویں سے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ بھارت میں دہشت گردی کے قریب ساڑھے سات سو واقعات میں 350 افراد ہلاک جب کہ 540 زخمی ہوئے۔ بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2018ء کے دوران کشمیر میں 321 دہشت گردانہ حملوں میں 123 افراد ہلاک ہوئے۔ کشمیر میں دہشت گردانہ حملے حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ نے کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
8۔ یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 227 واقعات میں 301 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی شاخ AQAP کے دہشت گرد ملوث تھے۔ تاہم سن 2015 کے مقابلے میں یمن میں دہشت گردی باعث ہلاکتوں کی تعداد 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Reuters/F. Salman
9۔ فلپائن
فلپائن نویں نمبر پر رہا جہاں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 424 واقعات پیش آئے جن میں قریب تین سو شہری مارے گئے۔ سن 2001 سے اب تک فلپائن میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں برس جی ٹی آئی انڈیکس میں فلپائن کا اسکور 7.14 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Favila
10۔ جمہوریہ کانگو
تازہ انڈیکس میں دسویں نمبر پر جمہوریہ کانگو رہا جہاں الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز اور دیگر گروہوں کے دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ان گروہوں کے حملوں میں زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
10 تصاویر1 | 10
علی حسن کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کے دیہی علاقے میں کوٹلی قاضی نامی ایک گاؤں سے ہے۔ اس گاؤں کے کئی نوجوانوں نے، جن میں اس کے بچپن کے دوست بھی شامل ہیں، بتایا کہ علی حسن کو بچپن ہی سے یورپ جانے کا شوق تھا کیونکہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بہتر مستقبل اور مالی خوشحالی کا خواہش مند تھا۔ کوٹلی قاضی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران کم از کم بھی 18 نوجوان بہتر مستقبل کی خاطر پناہ کی تلاش میں بیرون ملک جا چکے ہیں۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اس گاؤں کے بہت سے نوجوان علی حسن کو اس لیے ہیرو سمجھتے ہیں کہ اس نے پیرس میں حملہ کر کے دو افراد کو شدید زخمی کر دیا۔
اشتہار
تحریک لبیک کا گہرا اثر
کوٹلی قاضی پاکستانی صوبہ پنجاب کے جس ضلع کا گاؤں ہے، وہاں سخت گیر مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک کو گہرا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اس تحریک کا تقریباﹰ واحد مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کی روک تھام کے لیے بنایا گیا وہ متنازعہ قانون موجودہ حالت میں ہی نافذ رہنا چاہیے، جس کے تحت ایک مذہب کے طور پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کے جرم میں کسی بھی ملزم کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔
فرانس، انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین میں نیا کیا ہے؟
فرانس سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے تحت انسداد دہشت گردی کے لیے بھی کئی شقیں شامل ہیں۔ آخر ان ضوابط میں ہے کیا؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان کے اہم حصوں پر۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
نقل وحرکت پر پابندیاں
نئے قانون کے مطابق ایسے مشتبہ افراد، جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہو گا، وہ اس شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، جہاں ان کی رجسٹریشن ہوئی ہو گی۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے میں پیش بھی ہونا پڑے گا۔ ایسے افراد کے کچھ مخصوص مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ یہ اقدامات صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہوں گے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
گھروں کی تلاشی
نئے قوانین کے تحت متعلقہ حکام انسداد دہشت گردی کی خاطر کسی بھی مشتبہ شخص کے گھر کی تلاشی لینے کے مجاز ہوں گے۔ عام ہنگامی صورتحال کے دوران پولیس کو ایسے چھاپوں کی خاطر عدالت سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Edme
اہم مقامات پر مشتبہ افراد کی تلاشی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسزکو اجازت ہوگی کہ وہ ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کے دس کلو میٹر کے رداس میں موجود لوگوں سے شناختی دستاویزات طلب کر سکیں۔ اس اقدام کا مقصد سرحد پار جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq
عبادت گاہوں کی بندش
اس قانون کے تحت ریاست کو اجازت ہو گی کہ وہ کسی بھی ایسی عبادت گاہ کو بند کر دے، جہاں انتہا پسندانہ نظریات یا پروپیگنڈا کو فروغ دیا جا رہا ہو۔ ان عبادت گاہوں میں نفرت انگیزی اور امتیازی سلوک کی ترویج کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی تشدد پھیلانے کی کوشش اور دہشت گردی کی معاونت کے شبے میں عبادت گاہوں کو بند بھی کیا جا سکے گا۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
ایونٹس کے دوران سخت سکیورٹی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ایسے مقامات کے گرد و نواح میں واقع عمارات کی چیکنگ کی خاطر وہاں چھاپے مار سکیں اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر سکیں، جہاں نزدیک ہی کوئی عوامی ایونٹ منعقد کرایا جا رہا ہو گا۔ اس کا مقصد زیادہ رش والے مقامات پر ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کو ممکن بنانا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Samson
5 تصاویر1 | 5
علی حسن کے بچپن کے ایک دوست محمد اکرام نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا، ''یورپ جانا، جیسا کہ علی حسن فرانس چلا گیا تھا، سعودی عرب جیسے ممالک میں جانے سے بہتر ہے، کیونکہ یورپ میں آپ زیادہ رقم کما سکتے ہیں۔ لیکن میرے اور علی حسن کے کئی دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ علی حسن کی جگہ ہوتے، تو پیغمبر اسلام کے خاکے چھاپنے جیسی کوئی بھی حرکت دیکھ کر وہ بھی اسی طرح کے حملے ہی کرتے۔‘‘
کوٹلی قاضی نامی گاؤں میں علی حسن کے خاندان کی ایک بزرگ ہمسایہ خاتون، 80 سالہ آمنہ نے بتایا، ''علی حسن بچپن میں اپنی عمر کے دوسرے لڑکوں کی طرح نہیں تھا، وہ صرف تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن مذہبی طور پر دیکھا جائے تو اس نے فرانس میں جو کچھ بھی کیا، شاید آپ میری رائے سے متفق نہ ہوں، لیکن میرے نزدیک تو اس نے درست کام کیا۔‘‘
علی حسن کے والد ارشد محمود سے جب ان کی رائے دریافت کی گئی، تو انہوں نے اپنے گھر کے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔ ارشد محمود کے چند ہمسایوں کے مطابق اس پاکستانی باشندے نے صحافیوں سے کوئی بھی بات کرنے سے انکار اس لیے کیا کہ مقامی پولیس اور پاکستانی خفیہ ادارے پہلے ہی اسے خبردار کر چکے تھے کہ وہ عوامی سطح پر مزید کچھ بھی کہنے سے احتراز کرے۔ اس سے قبل پیرس میں اپنے بیٹے کی طرف سے کیے جانے والے حملے کے بعد ارشد محمود نے مبینہ طور پر اپنے بیٹے کے اس مجرمانہ اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کئی مرتبہ کھلم کھلا اس کی تعریف بھی کی تھی۔
مانچسٹر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی یاد میں کنسرٹ
مانچسٹر میں قبل دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی یاد میں ایک کنسرٹ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں آریانا گراندے سمیت امریکا کے پوپ گلوکاروں نے بھی شرکت کی۔ گراندے کے کنسرٹ کے دوران ہی مانچسٹر میں خود کش حملہ ہوا تھا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Goodman/London News Pictures via ZUMA
آریانا گراندے ایک مرتبہ پھر مانچسٹر میں
آریانا گراندے نے مانچسٹر حملے کے بعد ہی ایک مرتبہ پھر اس شہر میں ایک بینیفِٹ کنسرٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اتوار کے روز انہوں نے ’ون لوو ٹریبیوٹ کنسرٹ‘ کے آغاز پر کہا،’’ Manchester, we´re gonna be all right‘‘۔ اس کنسرٹ سے ہونے والی آمدنی دہت گردانہ حملوں کے متاثرین میں تقسیم کی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/O. Humphreys
معروف فنکاروں کا اظہار یکجہتی
یہ کنسٹرٹ اولڈ ٹریفرڈ کرکٹ گراؤنڈ میں منقعد ہوا۔ آریانا گراندے کے ساتھ ساتھ جسٹن بیبر،کیٹی پیری، کولڈ پلے، ٹیک دیتھٹ اور میلے سائرس بھی شریک ہوئے۔ سابقہ اوئیسس نامی گروپ کے لائم گیلیگہر بھی اچانک اسٹیج پر آئے۔ گیلیگہر کو مانچسٹر کا معروف ترین گلوکار بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Devlin
روبی ولیمز بھی اسٹیج پر
برطانوی گلوکار روبی ولیمز نے بھی اولڈ ٹریفرڈ اسٹیڈیم میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے گراؤنڈ میں موجود پچاس ہزار سے زائد شائقین کے ساتھ مل کر ’’Manchester we´re strong... we´re still singing our song‘‘نامی گیت گایا۔
تصویر: Getty Images/Dave Hogan for One Love Manchester
ایک ساتھ کھڑے ہیں
اس کنسرٹ کے موقع پر لی گئی اس تصویر میں موسیقی کی دو شائق خواتین ایک پولیس اہلکار کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ہفتے کے روز لندن میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد اس تقریب کے بھی منسوخ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters/P. Noble
سخت حفاظتی انتظامات
کنسرٹ کے مرکزی دروازے پر ایک مسلح پولیس اہلکار کھڑا ہے۔ پولیس کی جانب سے پہلے ہی سخت حفاظتی انتظامات کا اعلان کر دیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے اضافی اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/P. Noble
دہشت گردی کے خلاف متحد
اس کنسرٹ کا پیغام ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا اور اسے مشترکہ طور پر مسترد کرنا تھا۔ کنسرٹ کو دنیا کے کئی ممالک میں ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ پر دکھایا گیا۔ برطانوی ریڈ کراس کے مطابق اس کنسرٹ سے دس ملین پاؤنڈ کی آمدنی ہوئی۔ یہ تمام رقم ’وی لَو مانچسٹر‘ نامی اُس ہنگامی فنڈ میں جمع کرا دی گئی ہے، جو مانچسٹر حملوں کے متاثرین کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Goodman/London News Pictures via ZUMA
6 تصاویر1 | 6
نوجوان پاکستانی تارکین وطن اور ذہنی تصادم
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے ایک فیلو، مصنف اور سیاسی اور سکیورٹی تجزیہ نگار شجاع نواز کے بقول پاکستان جیسے ممالک سے یورپ آنے والے نوجوان تارکین وطن کو ذہنی طور پر دو طرح کے عوامل کے باعث فکری تصادم کی صورت حال کا سامنا رہتا ہے۔
شجاع نواز نے کہا، ''ایسے نوجوانوں کے آبائی ممالک، جیسے کہ پاکستان، زیادہ سے زیادہ مغرب بیزار ہوتے ہوئے اسلامیائے جانے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس عمل کے اسباب میں عوامیت پسند حکومتیں، سخت گیر مذہبی شخصیات کا گہرا اثر و رسوخ اور تیزی سے ناکام ہوتے ہوئے تعلیمی نظام بھی شامل ہیں۔ دوسرا نقصان دہ عمل یہ ہے کہ جب ایسے نوجوان قانونی یا غیر قانونی طریقے سے مغربی ممالک میں پہنچ جاتے ہیں، تو وہ دیگر مسلمان یا ہم وطن تارکین وطن کے ساتھ مل کر ایسے بند سماجی گروپوں کے رکن بن جاتے ہیں، جہاں کسی بھی موضوع پر اتفاق رائے یا کسی بھی طرح کے حالات کے دفاع کے لیے مذہب کی آڑ لی جاتی ہے۔‘‘
سٹاک ہوم میں ٹرک حملہ، سویڈن میں سکتے کی سی کیفیت
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک ٹرک متعدد افراد کو روندتا ہوا ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں جا گھُسا۔ اس واقعے میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ اس واقعے پر سویڈن میں سکتے کی سی کیفیت ہے۔
یہ واقعہ جمعہ سات اپریل کو اسٹاک ہوم کے وسط میں پیش آیا، جہاں ایک ٹرک ایک شاپنگ اسٹریٹ میں ایک ہجوم پر چڑھ دوڑا اور پھر ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور میں گھُس گیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد لوگ خوف و ہراس کا شکار ہو کر افراتفری میں وہاں سے بھاگ نکلے۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/A. Schyman
ٹرک کا ڈرائیور بھاگ گیا
بتایا گیا ہے کہ ٹرک کا ڈرائیور وہاں پائی جانے والی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس ایک تصویر کی مدد سے اس شخص کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مرکزی اسٹاک ہوم کے متاثرہ علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے اور پولیس اور ایمرجنسی سروسز کے عملے کے ارکان بھاری تعداد میں موقع پر پہنچ گئے ہیں۔ پولیس نے علاقے سے تمام افراد کو باہر نکال لیا ہے۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/A. Wiklund
’آہلینس سٹی‘ پر خوف کے سائے
اس تصویر میں ڈروٹ ننگاتان اسٹریٹ کے ’آہلینس سٹی‘ نامی اسٹور کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہی اسٹور ہے، جس میں یہ ٹرک جا گھُسا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Jaakonaho
وزیر اعظم کا اظہارِ افسوس
سویڈن کے وزیر اعظم اسٹیفن لووین نے اس واقعے پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ تمام تر شواہد یہی بتاتے ہیں کہ یہ ایک ’دہشت گردانہ حملہ‘ تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/T. Johansson
پولیس کی بھاری نفری
سویڈن کی انٹیلیجنس ایجنسی ساپو (Sapo) کی ایک خاتون ترجمان نینا اوڈرمالم نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ جان بوجھ کر کیا جانے والا ایک حملہ تھا، جس میں ’لوگ ہلاک اور زخمی بھی ہوئے ہیں‘۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/N. Johansson
ہلاک و زخمی ہونے والوں سے متعلق متضاد اطلاعات
روئٹرز کے مطابق اس واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے اور سویڈن کے وزیر اعظم نے بھی دو ہی ہلاکتوں کا ذکر کیا تاہم بعد میں سویڈن کی پولیس نے تین ہلاکتوں کی تصدیق کی۔ تازہ اطلاعات میں ’متعدد‘ افراد کے ہلاک و زخمی ہونے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/J. Gow
’میں نے کم از کم تین لاشیں دیکھیں‘
سویڈش ریڈیو نے اس واقعے میں تین افراد کی ہلاکت کا ذکر کیا تھا۔ سویڈش ریڈیو کے مارٹن سوینگسن نے بتایا تھا:’’میں نے کم از کم تین لاشیں دیکھی ہیں لیکن شاید زیادہ بھی ہوں۔‘‘ پولیس نے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی۔
تصویر: DW/N. Startseva
فائرنگ کی بھی آوازیں
روئٹرز کے ایک ذریعے نے اس واقعے کے بعد موقع پر انسانی جسموں کی طرح کے کئی اجسام کمبلوں سے ڈھکے ہوئے دیکھے۔ سویڈن کے نشریاتی ادارے ایس وی ٹی کے مطابق جائے ’واردات‘ پر فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔
تصویر: Reuters/I. Filks
سیاحوں میں مقبول علاقہ
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کا جو علاقہ اس ٹرک ’حملے‘ کا نشانہ بنا ہے، وہ اس شہر کے عین وسط میں واقع ہے اور ملکی اور غیر ملکی سیاحوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/KUNZ/Augenklick
علاقہ خالی کرا لیا گیا
اس واقعے کے فوراً بعد لوگ افراتفری میں یہاں سے بھاگ نکلے تھے۔ جو باقی رہ گئے تھے، اُنہیں بھی پولیس نے یہاں سے باہر نکال لیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کے ارکان نے پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں اور پوری طرح سے چوکنا ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Dikson
عینی شاہدین کے بیانات
روزنامے آفٹن بلڈیٹ سے باتیں کرتے ہوئے ایک عینی شاہد جان گران روتھ نے بتایا:’’ہم جوتوں کی ایک دکان میں کھڑے تھے اور ہم نے کچھ سنا ... اور پھر لوگوں کے چیخنے چِلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے شاپ سے باہر دیکھا تو مجھے ایک بڑا ٹرک نظر آیا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/J. Nackstrand
یورپی یونین کا اظہار ہمدردی
یورپی یونین نے اس واقعے کے بعد سویڈن کو ہر طرح کی مدد کی پیشکش کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتیریش نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/F. Sandberg
13 تصاویر1 | 13
خادم حسین رضوی کی ویڈیوز
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان سے ایران، ترکی اور پھر اٹلی کے راستے اگست 2018ء میں فرانس پہنچنے والا علی حسن پیرس کی ایک جیل میں بند ہے۔ اس سال 11 ستمبر کے روز شارلی ایبدو کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی دوبارہ اشاعت کے بعد سے وہ غصے میں تھا اور اس غصے کا نتیجہ 25 ستمبر کو اس کی طرف سے کیے جانے والے حملے کی صورت میں نکلا تھا۔
فرانسیسی پراسیکیوٹرز کی طرف سے علی حسن کے ساتھ رہنے والے افراد اور اس کے قریبی حلقوں سے کی جانے والی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ وہ تحریک لبیک پاکستان کے سخت گیر رہنما خادم حسین رضوی کی ایسی ویڈیوز دیکھتا رہتا تھا، جس میں خادم رضوی کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی جاتی تھی۔
اسی لیے علی حسن نے اپنی طرف سے کیے گئے حملے سے قبل سوشل میڈیا پر جو ویڈیو پوسٹ کی تھی، اس میں اس نے کہا تھا، ''اگر میں آپ کو جذباتی لگوں، تو اس کی ایک وجہ ہے، جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ یہاں فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکے چھاپے گئے ہیں، اور میں آج ان کے خلاف مزاحمت کروں گا۔‘‘
م م / ک م (اے پی)
یورپ میں دہشت گردانہ حملے
فرانسیسی میگزین ’شارلی ایبدو‘ پر ہونے والے حملے کی وجہ سے پورے یورپ کو دھچکا لگا ہے۔ گزشتہ گیارہ برسوں میں یورپ میں ہونے والے حملوں کی تاریخ تصویری شکل میں۔
تصویر: M. Bureau/AFP/Getty Images
نومبر 2003ء استنبول
ترکی کے اس شہر میں شدت پسندوں کی طرف سے پانچ دن کے اندر اندر متعدد حملے کیے گئے۔ یہودیوں کی عبادت گاہ، برطانوی سفارت خانے اور بینک سمیت دیگر حملوں میں مجموعی طور پر 58 افراد ہلاک جبکہ 600 سے زائد زخمی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مارچ 2004ء میڈرڈ
یہ اسپین کی حالیہ تاریخ کے بدترین حملوں میں سے ایک تھا۔ مختلف ٹرینوں پر کیے جانے والے ان حملوں میں 191 افراد ہلاک جبکہ دیگر اٹھارہ سو زخمی ہوئے۔
تصویر: AP
جولائی 2005ء لندن
جہادی خودکش حملہ آوروں نے لندن کی تین انڈر گراؤنڈ ٹرینوں اور ایک ڈبل ڈیکر بس کو نشانہ بنایا۔ اس میں 52 شہری مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. MacDiarmid
دسمبر 2010ء اسٹاک ہولم
سویڈن کے ایک مشہور شاپنگ سینٹر کی اسٹریٹ میں دو ہلکی نوعیت کے دھماکے ہوئے۔ اس کے نتیجے میں دو افراد زخمی ہوئے۔ دھماکے کا ذمہ دار ایک عراقی تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/J. Nackstrand
نومبر 2011ء پیرس
2011ء میں ’شارلی ایبدو‘ کے دفاتر کو نذر آتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اس کے باوجود بھی اس اخبار نے پیغمبر اسلام اور اسلام پر طنز و مزاح کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/abaca
مارچ 2012ء تولوز
گیارہ سے بائیس مارچ کے درمیان سب سے پہلے دو فرانسیسی فوجیوں کو گولیاں مارتے کر قتل کیا گیا۔ آٹھ دن بعد تین یہودی طالبعلموں اور ایک استاد کو ہلاک کر دیا گیا۔ بعدازاں حملہ آور بھی پولیس کارروائی میں مارا گیا۔
تصویر: AP
مئی 2014ء برسلز
ایک مسلح شخص نے چوبیس مئی کو ایک یہودی میوزیم کے سامنے فائرنگ کرتے ہوئے چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس حملہ آور کا تعلق بھی فرانس سے تھا اور شام میں ٹریننگ حاصل کر چکا تھا۔ چوری کے الزام میں یہ شخص پہلے بھی جیل کاٹ چکا تھا۔
تصویر: Reuters
ستمبر 2014ء برسلز
بیلجیم کے دارالحکومت میں واقع یورپی کمیشن کی عمارت پر حملے کے ایک منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق یورپ کو پہلے کی طرح جہادیوں کے حملوں کا خطرہ آج بھی لاحق ہے۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/M. Dairieh
جنوری 2015ء پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں اخبار شارلی ہیبدو پر حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک کر دیے گئے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق حملہ آور مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میگزین نے بھی پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے شائع کیے تھے۔