’پاکستانی ثالثی میں کرزئی کی حقانی سے مبینہ ملاقات‘
29 جون 2010افغان صدر کے ترجمان وحید عمر نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ رپورٹ جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔ ان کے بقول یہ کابل حکومت کی جانب سے قیام امن کی کوششوں کے خلاف منصوبے کا حصہ ہے۔ وحید عمر کے بقول افغان حکومت نے طالبان عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی کچھ شرائط مقرر کر رکھی ہیں جس کے مطابق محض مسلح کارروائیاں ترک کردینے والوں سے ہی بات کی جائے گی۔
الجزیرہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کی ثالثی میں حقانی نے کابل میں افغان صدر سے ملاقات کی ہے۔
سراج الدین حقانی طالبان کمانڈر جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں اور ان کے جنگجو افغانستان میں متعین غیر ملکی اور ملکی افواج پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ اس طالبان گروپ کا گڑھ شمالی وزیرستان کو قرار دیا جاتا ہے، جو آج کل امریکی ڈرون طیاروں کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے جس کے سبب اب تک عسکریت پسندوں اور عام شہریوں کے بشمول لگ بھگ نو سو افراد مارے جاچکے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس بھی اس رپورٹ کو مسترد کرچکے ہیں۔ ان کے بقول فوجی سربراہ سہ فریقی فوجی قیادت کی ملاقات میں شرکت کے لئے پیر کو کابل جارہے تھے مگر یہ نشست ملتوی ہوگئی ہے۔ سہ فریقی فوجی قیادت میں پاکستان، افغانستان اور افغانستان متعین اتحادی افواج کے اعلیٰ کمانڈر کابل اور اسلام آباد میں ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔
کرزئی انتظامیہ جلد ایک ایسا نیا ادارہ قائم کرنے والی ہے جو مکمل طور پر طالبان سے مصالحت کے امور کی نگرانی کرے گا۔ دریں اثناء افغان پارلیمان نے صدر کرزئی کے تجویز کردہ سات میں سے پانچ وزراء کے ناموں کی منظوری دے دی ہے۔
’’ولسی جرگہ‘‘ یعنی پارلیمان کے ایوان زیریں نے سابق فوجی سربراہ جنرل بسم اللہ محمدی کو وزیر داخلہ، اسد اللہ خالد کو وزیر سرحدی و قبائلی امور، انوار الحق احدی کو وزیر تجارت، جماھیر انوری کو عوامی خدمت اور عبدالقدوس حامدی کو مہاجرین کے وزیر کے طور پر قبول کیا۔
افغان صدر کی کابینہ میں وزراء کی تعداد اب 17 ہوگئی ہے اور ابھی انہیں پارلیمان سے مزید سات وزراء اور انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کے نام کی منظوری حاصل کرنی ہوگی۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : افسر اعوان