پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار سعید آسی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹ کی عزت کو داغدار کرنے کی ذمہ دار ہیںاگر تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں سندھ ہاؤس میں بیٹھے ارکان کی بولی لگنے کی خبریں آئیں تو دوسری طرف سینٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے حالیہ انتخابات میں حکومت نے ارکان کی وفاداریاں جس طرح تبدیل کروائیں وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں جس طرح وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں اس سے تو یہ تاثر ملا کہ صرف سیاسی لوگ ہی جمہوریت کو داغدار کرنے میں مصروف نہیں بلکہ اس تالاب میں سب ایک جیسے ہیں۔
کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نون جس نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تھا وہ اب اس نعرے کو پس پشت ڈال کر طاقتور حلقوں کی مدد سے نئے سیاسی منظر نامے میں اپنا حصہ وصول کرنے کو تیار ہو گئی ہے۔
عزت ووٹ کی نہیں سیاسی اشرافیہ کی
سعید آسی بتاتے ہیں کہ آج کے منظر نامے میں سارا فوکس تواتر سے وفاداریاں بدلنے والے 'الیکٹیبلز‘ یعنی ایسے امیدوار جن کی کامیابی یقینی ہوتی ہے، اور سیاسی اشرافیہ بنے ہوئے اتحادیوں پر ہو گیا ہے، اور لگتا یہ ہے کہ وہ نظام جو عوام کے ذریعے عوام کے لیے ہونا چاہیے تھا وہ اسپانسرز کے ذریعے الیکٹیبلز اور اتحادیوں کے لیے مخصوص ہو چکا ہے۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ مسلسل پارٹیاں بدلنے والے یہ ایک سو کے قریب الیکٹیبلز ہی ہیں جو پورے نظام کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتے ہیں: ''بدقسمتی سے کسی پارٹی میں یہ جرات نہیں کہ وہ لوٹوں کو قبول کرنے سے انکار کرے بلکہ وہ مراعات دے کر انہیں قبول کرتے ہیں اور فخر سے اس کا ذکر کرتے ہیں کہ ان ارکان کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں پاور پلے چل رہا ہے، ووٹ کو عزت دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نواز شریف حقیقی جمہوری اقدار پر قائم رہے گا اور نہ ہی دینی اصلاحات استعمال کرنے کا یہ مطلب ہے کہ عمران خان اس ملک میں سچ مچ دینی اقدار کے فروغ کے لیے مخلص ہے۔ جس کو جس نعرے سے سیاسی فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ وہی نعرے لگا رہا ہے۔‘‘
سیاسی وفاداریاں بدلنا ایک پرانا کھیل
پاکستان کے ممتاز دانشور اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما قیوم نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی سیاست میں ہارس ٹریدنگ ایک پرانا کھیل ہے اور ماضی میں ممتاز دولتانہ جیسی شخصیات ایسے کاموں کی ماہر سمجھی جاتی تھیں: ''پاکستان کے شروع کے دنوں میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں اتنے پاجامے تبدیل نہیں کرتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘‘ قیوم نظامی کے نزدیک موجودہ سیاسی نظام برطانوی سامراج کی ایسی یادگار ہے جس میں 200 خاندانوں کے ذریعے عوام کو محکوم بنا کر رکھا گیا ہے۔ ان کی رائے میں جب تک عوام بیدار نہیں ہوں گے، متناسب نمائندگی کا نظام رائج نہیں ہو گا اور وزیر اعظم کو براہ راست منتخب کرنے کی طرف ہم نہیں آئیں گے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔
وضعداری کا اختتام
پاکستان کے ممتاز اخبار نویس چوہدری خادم حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماضی میں شاہ احمد نورانی اور نواب زادہ نصراللہ جیسے سیاست دان اس قدر وضعدار تھے کہ اپنے بہت ہی مخالف جنرل ضیاالحق کو آپ یا جناب ضیاالحق کہہ کر مخاطب کرتے تھے: ''اب جب سے سیاست کنٹینروں کی نذر ہوئی ہے، سیاسی فضا بدل گئی ہے۔ الزامات، گالیاں، ذاتیات پر حملے اور عامیانہ اسلوب اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی پر سیاسی بھنگڑوں کا الزام لگتا تھا اب بات بہت آگے نکل گئی ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اب سیاسی اجتماعات ڈیٹ کی جگہ بھی بن گئے ہیں۔‘‘
برداشت کا زوال
چوہدری خادم حسین بتاتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی حق ہے اور اسے پیش کرنا اور اس کا دفاع کرنا ایک آئینی عمل ہے اور اس میں رکاوٹیں ڈالنا ایک غیر جمہوری رویہ ہے۔ ان کے مطابق یہ کہنا کہ ''دیکھیں گے کون مجمعے سے گذر کر جاتا ہے اور پھر ووٹ دے کر واپس کیسے جاتا ہے‘‘ سیاسی عدم برداشت کو ظاہر کرتا ہے۔
آگے کیا ہو گا؟
چوہدری خادم حسین کے مطابق گزشتہ دنوں چھ ریٹائرڈ جرنیلوں کی طرف سے چھ نکات سامنے آئے تھے جن میں وزیراعظم کے مستعفی ہونے، عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے، جلسے منسوخ کرنے، نگران حکومت بنانے اور نئے انتخابات کروانے کی تجویز دی گئی تھی: ''عمران خان کو یہ سب قبول نہیں تھا اس لیے وہ گیلری پلے کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ وقت گزر گیا اور اب عمران خان کو زیادہ فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ ڈر ہے کہ غصے کی فضا میں قافلے جس طرح اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں کہیں وہاں کوئی تماشہ ہی نہ ہو جائے۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''ملک بری طرح تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ پنجاب میں واضح حمایت رکھنے والی مسلم لیگ نون کا کوئی ایک ممبر بھی توڑا نہیں جا سکا۔ پیپلز پارٹی سندھ میں ماضی کی طرح ہی مضبوط ہے۔ سنٹرل پنجاب میں نون لیگ کے علاوہ تحریک انصاف کا بھی ووٹ بنک موجود ہے لیکن عوام کے لیے مستقبل قریب میں کوئی اچھی خبر دکھائی نہیں دے رہی۔ وہ بے چارے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کسی معجزے کے منتظر ہیں۔‘‘
مستقبل میں بہتری کی امیدیں معدوم
روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں 'اسپانسرز‘ اور 'اے ٹی ایمز‘ کا رول بہت بڑھ گیا ہے اس کے علاوہ ہماری سیاسی کلاس نے انتظامی اختیارات کو بھی اپنا حق سمجھ کر استعمال کیا ہے: ''اپنی مرضی کی پوسٹنگ، اپنی مرضی کی ٹرانسفر اپنی مرضی کا ٹھیکہ اور اپنی ہی مرضی کا پراجیکٹ۔ اس صورتحال نے ٹھیکیداروں، سرکاری افسروں، کاروباری لوگوں اور دیگر مافیاز کی ایک فوج پیدا کر دی ہے جو اس 'اسٹیٹس کو‘ کے نظام کو تقویت فراہم کر رہی ہے۔ اب پیسے کے بغیر کوئی عام آدمی الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں نہیں جا سکتا۔ اسپانسرز الیکٹیبلز کے ذریعے حکومتوں کو بلیک میل کرکے اپنے مفادات سمیٹتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی سے نکلنے، اپنے اندر الیکشن کرانے، وراثتی خول سے باہر آنے، میرٹ پر امیدوار منتخب کرنے، اسٹیبلشمنٹ کے چکر سے نکلنے اور شفاف الیکشن یقینی بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ کئی سیاسی جماعتیں مسلکی، علاقائی اور شخصی سوچ سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔‘‘
حکومت بدل بھی جائے تو نظام میں تبدیلی مشکل
سعید آسی بتاتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی اور بقا آئین اور قانون کی حکمرانی میں پوشیدہ ہے اگر سارے ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں تو ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے بقول کوئی بھی ایسا نہیں جو اس بات کی ضمانت دے سکے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں ماورائے آئین اقدامات کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت سے باز رہے گی، اس لیے لگتا ہے کہ پاکستان میں اگر حکومت تبدیل ہو بھی گئی تو نظام پھر بھی تبدیل نہیں ہو سکے گا اور چہرے بدل کر ماضی کی طرح کی ہی صورتحال رہے گی۔