1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی جمہوریت: ووٹ کو عزت مل سکی اور نہ ووٹرز کو

27 مارچ 2022

حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میں ابھی یہ تو واضح نہیں کہ جیت کس کی ہو گی لیکن یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جنگ میں بُری طرح ہار ہو رہی ہے جمہوریت اور جمہوری اقدار کی۔

تصویر: PPI/ZUMA Wire/picture-alliance

پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار سعید آسی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹ کی عزت کو داغدار کرنے کی ذمہ دار ہیںاگر تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں سندھ ہاؤس میں بیٹھے ارکان کی بولی لگنے کی خبریں آئیں تو دوسری طرف سینٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے حالیہ انتخابات میں حکومت نے ارکان کی وفاداریاں جس طرح تبدیل کروائیں وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں جس طرح وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں اس سے تو یہ تاثر ملا کہ صرف سیاسی لوگ ہی جمہوریت کو داغدار کرنے میں مصروف نہیں بلکہ اس تالاب میں سب ایک جیسے ہیں۔

کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نون جس نے ووٹ کو عزت دو کا  نعرہ لگایا تھا وہ اب اس نعرے کو پس پشت ڈال کر طاقتور حلقوں کی مدد سے نئے سیاسی منظر نامے میں اپنا حصہ وصول کرنے کو تیار ہو گئی ہے۔

عزت ووٹ کی نہیں سیاسی اشرافیہ کی

سعید آسی بتاتے ہیں کہ آج کے منظر نامے میں سارا فوکس تواتر سے وفاداریاں بدلنے والے 'الیکٹیبلز‘ یعنی ایسے امیدوار جن کی کامیابی یقینی ہوتی ہے، اور سیاسی اشرافیہ بنے ہوئے اتحادیوں پر ہو گیا ہے، اور لگتا یہ ہے کہ وہ نظام جو عوام کے ذریعے عوام کے لیے ہونا چاہیے تھا  وہ اسپانسرز کے ذریعے الیکٹیبلز اور اتحادیوں کے لیے مخصوص ہو چکا ہے۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ  مسلسل پارٹیاں بدلنے والے یہ ایک سو کے قریب الیکٹیبلز ہی ہیں جو پورے نظام کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتے ہیں: ''بدقسمتی سے کسی پارٹی میں یہ جرات نہیں کہ وہ لوٹوں کو قبول کرنے سے انکار کرے بلکہ وہ مراعات دے کر انہیں قبول کرتے ہیں اور فخر سے اس کا ذکر کرتے ہیں کہ ان ارکان کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں پاور پلے چل رہا ہے، ووٹ کو عزت دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نواز شریف حقیقی جمہوری اقدار پر قائم رہے گا اور نہ ہی دینی اصلاحات استعمال کرنے کا یہ مطلب ہے کہ عمران خان اس ملک میں سچ مچ دینی اقدار کے فروغ کے لیے مخلص ہے۔ جس کو جس نعرے سے سیاسی فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ وہی نعرے لگا رہا ہے۔‘‘

’’ڈر ہے کہ غصے کی فضا میں قافلے جس طرح اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں کہیں وہاں کوئی تماشہ ہی نہ ہو جائے۔‘‘تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

سیاسی وفاداریاں بدلنا ایک پرانا کھیل

پاکستان کے ممتاز دانشور اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما قیوم نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی سیاست میں ہارس ٹریدنگ ایک پرانا کھیل ہے اور ماضی میں ممتاز دولتانہ جیسی شخصیات ایسے کاموں کی ماہر سمجھی جاتی تھیں: ''پاکستان کے شروع کے دنوں میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں اتنے پاجامے تبدیل نہیں کرتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘‘ قیوم نظامی کے نزدیک موجودہ سیاسی نظام برطانوی سامراج کی ایسی یادگار ہے جس میں 200 خاندانوں کے ذریعے عوام کو محکوم بنا کر رکھا گیا ہے۔ ان کی رائے میں جب تک عوام بیدار نہیں ہوں گے، متناسب نمائندگی  کا نظام رائج نہیں ہو گا اور وزیر اعظم کو براہ راست منتخب کرنے کی طرف ہم نہیں آئیں گے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔

وضعداری کا اختتام

پاکستان کے ممتاز اخبار نویس چوہدری خادم حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماضی میں شاہ احمد نورانی اور نواب زادہ نصراللہ جیسے سیاست دان اس قدر وضعدار تھے کہ اپنے بہت ہی مخالف جنرل ضیاالحق کو آپ یا جناب ضیاالحق کہہ کر مخاطب کرتے تھے: ''اب جب سے سیاست کنٹینروں کی نذر ہوئی ہے، سیاسی فضا بدل گئی ہے۔ الزامات، گالیاں، ذاتیات پر حملے اور عامیانہ اسلوب اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی پر سیاسی بھنگڑوں کا الزام لگتا تھا اب بات بہت آگے نکل گئی ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ  اب سیاسی اجتماعات ڈیٹ کی جگہ بھی بن گئے ہیں۔‘‘

کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نون جس نے ووٹ کو عزت دو کا  نعرہ لگایا تھا وہ اب اس نعرے کو پس پشت ڈال کر طاقتور حلقوں کی مدد سے نئے سیاسی منظر نامے میں اپنا حصہ وصول کرنے کو تیار ہو گئی ہے۔تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

برداشت کا زوال

چوہدری خادم حسین بتاتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی حق ہے اور اسے پیش کرنا اور اس کا دفاع کرنا ایک آئینی عمل ہے اور اس میں رکاوٹیں ڈالنا ایک غیر جمہوری رویہ ہے۔ ان کے مطابق یہ کہنا  کہ ''دیکھیں گے کون مجمعے سے گذر کر جاتا ہے اور پھر ووٹ دے کر واپس کیسے جاتا ہے‘‘ سیاسی عدم برداشت کو ظاہر کرتا ہے۔

آگے کیا ہو گا؟

چوہدری خادم حسین کے مطابق گزشتہ دنوں چھ ریٹائرڈ جرنیلوں کی طرف سے چھ نکات سامنے آئے تھے جن میں وزیراعظم کے مستعفی ہونے، عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے، جلسے منسوخ کرنے، نگران حکومت بنانے اور نئے انتخابات کروانے کی تجویز دی گئی تھی: ''عمران خان کو یہ سب قبول نہیں تھا اس لیے وہ  گیلری پلے کر رہے ہیں۔  لگتا ہے کہ وقت گزر گیا اور اب عمران خان کو زیادہ فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ ڈر ہے کہ غصے کی فضا میں قافلے جس طرح اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں کہیں وہاں کوئی تماشہ ہی نہ ہو جائے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''ملک بری طرح تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ پنجاب میں واضح حمایت رکھنے والی مسلم لیگ نون کا کوئی ایک ممبر بھی توڑا نہیں جا سکا۔ پیپلز پارٹی سندھ میں ماضی کی طرح ہی مضبوط ہے۔ سنٹرل پنجاب میں نون لیگ کے علاوہ  تحریک انصاف کا بھی ووٹ بنک موجود ہے لیکن عوام کے لیے مستقبل قریب میں کوئی اچھی خبر دکھائی نہیں دے رہی۔ وہ بے چارے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کسی معجزے کے منتظر ہیں۔‘‘

تجزیہ نگاروں کے بقول کوئی بھی ایسا نہیں جو اس بات کی ضمانت دے سکے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں ماورائے آئین اقدامات کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت سے باز رہے گی۔تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

مستقبل میں بہتری کی امیدیں معدوم

روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں 'اسپانسرز‘  اور 'اے ٹی ایمز‘ کا رول بہت بڑھ گیا ہے اس کے علاوہ ہماری سیاسی کلاس نے انتظامی اختیارات کو بھی اپنا حق سمجھ کر استعمال کیا ہے: ''اپنی مرضی کی پوسٹنگ، اپنی مرضی کی ٹرانسفر اپنی مرضی کا ٹھیکہ اور اپنی ہی مرضی کا پراجیکٹ۔ اس صورتحال نے ٹھیکیداروں، سرکاری افسروں، کاروباری لوگوں اور دیگر مافیاز کی ایک فوج پیدا کر دی ہے جو اس 'اسٹیٹس کو‘ کے نظام کو تقویت فراہم کر رہی ہے۔ اب پیسے کے بغیر کوئی عام آدمی الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں نہیں جا سکتا۔ اسپانسرز الیکٹیبلز کے ذریعے حکومتوں کو بلیک میل کرکے اپنے مفادات سمیٹتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی سے نکلنے، اپنے اندر الیکشن کرانے، وراثتی خول سے باہر آنے، میرٹ پر امیدوار منتخب کرنے، اسٹیبلشمنٹ کے چکر سے نکلنے اور شفاف الیکشن یقینی بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ کئی سیاسی جماعتیں مسلکی، علاقائی اور شخصی سوچ سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔‘‘

حکومت بدل بھی جائے تو نظام میں تبدیلی مشکل

سعید آسی بتاتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی اور بقا آئین اور قانون کی حکمرانی میں پوشیدہ ہے اگر سارے ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں تو ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے بقول کوئی بھی ایسا نہیں جو اس بات کی ضمانت دے سکے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں ماورائے آئین اقدامات کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت سے باز رہے گی، اس لیے لگتا ہے کہ پاکستان میں اگر حکومت تبدیل ہو بھی گئی تو نظام پھر بھی تبدیل نہیں ہو سکے گا اور چہرے بدل کر ماضی کی طرح کی ہی صورتحال رہے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں