پاکستانی جہادی تنظیم پر پابندی: اسلام آباد کتنا سنجیدہ ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
22 فروری 2019
پاکستانی حکومت نے ایک بار پھر جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ کئی ناقدین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آیا اس مرتبہ اس پابندی کے احترام کو سختی سے یقینی بھی بنایا جائے گا۔
اشتہار
دوسری طرف جماعت الدعوہ نے اپنے اور اپنے فلاحی ادارے پر اس پابندی کو مسترد کر دیا ہے۔ اسلام آباد حکومت نے کل جمعرات اکیس فروری کو جماعت الدعوہ اور اس کی فلاحی شاخ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر ایک بار پھر پابندی لگا دی تھی۔ اس سے قبل ماضی میں عائد کردہ ایسی ہی پابندی کی مدت پوری ہو گئی تھی۔
جماعت الدعوہ کے ترجمان یحییٰ مجاہد نے ایک تحریری سوال کے جواب میں جمعہ بائیس فروری کو ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پہلے بھی بھارت کے دباؤ پر ہم پر پابندی لگائی گئی تھی اور اب پھر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پہلے بھی ہم نے عدالتوں سے رجوع کیا تھا اور ہم اب بھی عدالتوں ہی میں جائیں گے۔‘‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں گزشتہ ہفتے کے خود کش کار بم حملے کے بعد سے پاکستان کو دہشت گردی کے مسئلے کے حوالے سے بہت دباؤ کا سامنا ہے۔ اس حملے کی مذمت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے علاوہ کئی تمام اہم بین الاقوامی تنظیموں اور سرکردہ شخصیات نے بھی کی تھی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس دباؤ ہی کی وجہ سے اب ان دونوں تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہے۔
ماضی میں کیا ہوا؟
پاکستان کے معروف صحافی اور ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیاالدین کے خیال میں اس سارے دباؤ کے باوجود پاکستان اپنے ہاں جہادی تنظیموں کو لگام ڈالنے میں مخلص نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جیش محمد اور لشکر طیبہ نے پاکستان کی آئی ایس آئی اور آرمی کے لیے کام کیا ہے۔ سابق صدر زرداری کے دور میں قومی سلامتی کے مشیر نے کہا تھا کہ حکومت کے پاس لشکر طیبیہ کے خلاف تمام شواہد موجود ہیں لیکن یہ کہ ان کے خلاف کارروائی طاقتور حلقوں کی وجہ سے نہیں کی جا سکتی۔ پھر بجائے اس کے کہ ان جہادی تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی، تب قومی سلامتی کے مشیر کو ہی فارغ کر دیا گیا تھا۔‘‘
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
7 تصاویر1 | 7
پاکستان نے ماضی میں بھی اپنے ہاں جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیموں پر پابندیاں لگائی تھیں لیکن اس کے بعد ان تنظیموں نے اپنے نام بدل بدل کر دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اگر حکومت اس عمل میں واقعی مخلص ہے، تو پھر ایسی تنظیموں پر بھرپور پابندی لگائے۔
’ممکنہ جنگ کی وجہ‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف سخت کارروائیوں کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے اقدامات خطے میں ایک جوہری جنگ کا سبب بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’ان عناصر کی وجہ سے خطے کے دونوں ممالک میں کئی مواقع پر کشیدگی ہوئی۔ اور ایک مرتبہ تو دونوں جنگ کے بہت ہی قریب تھے۔ لہٰذا حکومت کو ان پابندیوں پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دوبارہ اپنے نام بدل بدل کر کام شروع نہ کریں۔ اس کے علاوہ ان تنظیموں کے ترجمان بنے ہوئے جہادی اخبارات اور دیگر مطبوعات کے خلاف بھی کریک ڈاؤن ہونا چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کا خیر مقدم تو کرتے ہیں لیکن انہیں یہ امید نہیں کہ اس پابندی پر عمل درآمد بھی ہو گا۔
مودی کے اقدامات
بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار طاہر مجید بھی ڈاکٹر توقیر گیلانی کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پہلے بھی پابندی لگی تھی لیکن اس کے باوجود کشمیرمیں دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کی ریاستی پالیسی بدلنے کا ہے۔ لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ بھارتی حکومت کے اقدامات بھی کشمیریوں کو عسکریت پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے کی کوشش نے بھی کشمیریوں کو بھارت سے بدظن کیا ہے۔‘‘
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی پالیسی کشمیر اور خارجہ سطح پر کئی دیگر امور کے حوالے سے اختلافات کا شکار رہی ہے۔ ان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سویلین حکومتوں نے جہادی تنظیموں کو قابو کرنے کی کوشش کی اور بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کاوشیں بھی کیں، لیکن جی ایچ کیو (پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز) ان معاملات میں ہمیشہ رکاوٹ بنا اور اب بھی ملک کی طاقتور فوج ہی ان معاملات میں رکاوٹ بنے گی ۔
تاہم پاکستان میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا دعویٰ ہے کہ حکومت اس مرتبہ ان تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کے سلسلے میں بہت سنجیدہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ماضی میں ادارے اور حکومتیں ایک ہی صفحے پر نہیں ہوتے تھے۔ ان تنظیموں کے حوالے سے حکومت کا موقف مختلف ہوتا تھا اور خفیہ ایجنسیوں کا زاویہ نگاہ مختلف۔ لیکن اب اداروں اور حکومت دونوں کو ادراک ہو چکا ہے کہ ان تنظیموں کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی طور پر مشکلات کا شکار ہورہا ہے۔ لہٰذا حکومت پوری سنجیدگی سے اس دوبارہ پابندی پر عمل درآمد کرائے گی اور ان تنظیموں سے سختی سے نمٹے گی۔‘‘
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔