لاہور ڈسٹرکٹ جیل کی ایک خاتون قیدی کی سوشل میڈیا پر ویڈیو نے پاکستان کے سماجی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ کئی حلقوں میں خواتین کے ساتھ جیلوں میں روا رکھنے جانے والے سلوک پر بحث چھڑ گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اشتہار
پاکستان ميں کچھ دنوں سے ایک خاتون قیدی کی ویڈیو مختلف واٹس اپ گروپوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چل رہی ہے، جس میں مذکورہ خاتون نے الزام عائد کيا ہے کہ خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال جاری ہے۔ انہوں نے دعویٰ کيا کہ خواتين قيديوں کو اعلیٰ افسران کی جنسی ہوس مٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خاتون نے ایک سینئر پولیس افسر کا نام لے کر بتایا کہ خواتین قیدیوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ خاتون قیدی نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اس صورت حال کا نوٹس لیں۔
پولیس نے رد عمل ميں کہا ہے کہ یہ ویڈیو ایک سال پرانی ہے اور یہ کہ اس ویڈیو کو بنانے اور جاری کرنے والوں کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب شاہد سلیم نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اسے پولیس کو بدنام کرنے کے لیے اپ لوڈ کیا گيا تھا۔ اس وقت بھی ہم نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم کو اطلاع دی تھی اور ان سے کہا تھا کہ یہ پتا چلایا جائے کہ کس نے اس کو اپ لوڈ کیا۔ لیکن کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ ابھی پھر ہم نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ پتہ چلائيں کہ اس ویڈیوکوکس نے اپ لوڈ کیا ہے۔‘‘
شاہد سلیم کے بقول اس ویڈیو میں کيے جانے والے دعوے جھوٹ پر مبنی ہيں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ '' جس جیل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، وہاں خواتین کے ليے سيکشن ہیں ہی نہیں۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے ايک کرائم رپورٹر، جن کی اس طرح کے معاملات پر گہری نظر ہے، شاہد سلیم کے اس دعوے سے اتفاق کرتے ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''پاکستان میں میڈیا بہت متحرک ہے۔ یہ کسی بھی طور پر ممکن نہیں کہ اس طرح رات کی تاریکی میں خواتین قیدیوں کو نکال کے کہیں بھی لے جایا جائے اور جنسی استحصال کا شکار بنایا جائے۔‘‘
اس رپورٹر کا مزید کہنا تھا کہ جیل میں خواتین سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور ہراساں بھی کیا جاتا ہے لیکن جنسی استحصال کا دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
فیصل آباد جیل میں ہيومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے منصوبے پر کام کرنے والی امینہ زمان کا کہنا ہے کہ جیل میں خواتین کے خلاف مار پیٹ ہوتی تھی لیکن جنسی استحصال کا کوئی واقعہ ان کے مشاہدے میں نہیں آیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''فیصل آباد جیل کی حد تک میں کہہ سکتی ہو کہ یہاں پر خواتین وارڈز میں مردوں کا بھی داخلہ اتنا عام نہیں تھا، تو مجھے نہیں لگتا کہ اس خاتون قیدی کا جو دعویٰ ہے اس میں کوئی صداقت ہے۔‘‘
تاہم جیل میں وقت گزارنے والی خواتین اور مرد قیدی اس ویڈیو میں کیے گئے دعووں سے اتفاق کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسلام آباد کی صدر شہزادہ کوثر گیلانی جو اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران کئی مرتبہ جیل گئیں، اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ کوثر گیلانی پہلی مرتبہ اپنی والدہ کے ساتھ جیل مارشل لا کے دور میں گئی تھيں اور اس کے بعد انہیں متعدد بار سیاسی وجوہات کی بنیاد پر جیل جانا پڑا۔ کوثر گیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''تقریباً 21 سال پہلے جب میں اڈیالہ جیل میں تھی، تو وہاں دو سو سے زائد خواتین ایسی تھیں، جو منشیات اور دوسرے مقدمات میں سزائے کاٹ رہی تھیں۔ ان میں سے کئی خواتین خصوصاً خوبصورت خواتین کو بڑے افسران، با اثر قیدی اور باہر کے دوسرے طاقت ور لوگوں کو خوش کرنے کے ليے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔‘‘
ان کے بقول جن خواتین کو اس طرح استعمال کیا جاتا تھا، انہيں بعد ازاں جیل میں رعایات بھی دی جاتی تھيں۔''ایک خاتون قیدی نے تو یہاں تک مجھے بتایا کہ اس کو اس کے بھائی اور بھابھی سے ملاقات کے لیے باہر لے جایا جاتا تھا۔‘‘
کوثر گیلانی کا دعوی ہے کہ خواتین قیدیوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور جنسی استحصال پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ''خواتین پولیس اہلکار بھی اس میں ملوث ہوتی ہیں اور ان کی نگرانی میں ہی خواتین قیدیوں کو عیاش لوگوں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ جنسی استحصال کا شکار ہونے والی خواتین اپنی زبان نہیں کھولتيں کیوں کہ شکایت کرنے کی صورت میں ان کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی کی جاتی تھی۔‘‘
فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی، جنہوں نے ملک کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کا دعوی غیر حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''جیل کے عملے کا رویہ خواتین سیاسی کارکنان سے تھوڑا سا مختلف ہوتا تھا کیونکہ انہیں ڈر ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے سیاسی جماعتیں ہیں لیکن جو غریب اور بے سہارا خواتین چھوٹے موٹے جرائم میں جیل کے اندر ہوتی تھيں، ان کا اس دور میں بھی جنسی استحصال کیا جاتا تھا۔ سپاہی سے لے کر افسران تک سب اس گھناؤنے گیم میں شریک جرم تھے۔‘‘
کوثر گیلانی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر سی سی ٹی وی کیمرے خواتین وارڈز میں لگائے جائیں اور ان کی نگرانی پر ایماندار افسران کو متعین کیا جائے۔ ''اس کے علاوہ عدلیہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر ملکی مبصرین کی طرف سے جیل کا غیر اعلانیہ دورہ ہونا چاہیے تاکہ پولیس پر احتساب کا ایک خوف ہو۔‘‘
کوثر گیلانی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی پولیس والوں کا رویہ خواتین کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز ہوتا تھا۔ ''پولیس والے ملاقاتیوں سے رشوت لیتے تھے۔ جو کھانے کا سامان آتا تھا اس میں جو اچھا کھانا ہوتا تھا وہ رکھ لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ کپڑے اور چپلیں بھی رکھ لیا کرتے تھے۔ اور اگر اس پر کوئی احتجاج کرتا، تو اس کو خوب مارا پیٹا جاتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے کسی مسئلے پر احتجاج کیا تو مجھے اڈیالہ جیل سے اٹک جیل میں لا کر بند کر دیا گیا۔‘‘
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔