1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتافغانستان

پاکستانی حملوں میں افغان ہلاکتوں کی تعداد 47 ہو گئی، حکام

18 اپریل 2022

مشرقی افغانستان میں پاکستانی فوج کے فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 47 ہو گئی ہے جب کہ اسلام آباد نے کابل پر زور دیا کہ وہ افغان سرزمین سے حملے شروع کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔

Afghanistan Khost | Protest gegen pakistanische Luftangriffe
خوست میں پاکستان مخالف مظاہرےتصویر: AFP

افغان حکام کے مطابق مشرقی افغانستان کے صوبوں خوست اور کنڑ میں پاکستانی فورسز کی بمباری میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 47 تک پہنچ گئی ہے۔ قبل ازیں ایسی ہلاکتوں کی تعداد سات بتائی جا رہی تھی۔ افغان حکام نے بتایا ہے کہ فضائی حملوں نے سرحد کے ساتھ واقع خوست اور کنڑ میں رہائشی مکانات کو نشانہ بنایا۔

ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ

خوست میں اطلاعات و ثقافت کے ڈائریکٹر شبیر احمد عثمانی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''صوبہ خوست میں ڈیورنڈ لائن کے قریب پاکستانی فورسز کے فضائی حملوں میں 41 عام شہری، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک اور 22 دیگر زخمی ہوئے۔‘‘

 خوست میں وزارت برائے فروغِ بھلائی اور برائیوں کی روک تھام کے ایک اہلکار نجیب اللہ نے بتایا کہ صوبے میں مرنے والوں کی تعداد 48 ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ایک ہی خاندان کے چوبیس افراد مارے گئے ہیں۔‘‘

خوست سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما جمشید نے بھی 40 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔

خوست میں ایک اور سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس نے ہلاک ہونے والے لوگوں کی 42 قبریں دیکھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ لاپتہ ہیں۔

زخمی ہونے والا ایک لڑکاتصویر: AFP

خوست میں کچھ متاثرین کو دفنانے میں مدد کرنے والے ایک مذہبی عالم عبدالوہاب نے کہا، ''کچھ کے چہرے اور کئی لاشیں جلی ہوئی تھیں اور وہ پہچانے نہیں جا رہے تھے۔‘‘

اس دوران افغانستان کے معروف نجی ٹی وی چینل طلوع نیوز نے خوست میں حملے کے نتیجے میں تباہ شدہ مکانات کے بکھرے ہوئے ملبے اور خون کی لرزہ خیز فوٹیج دکھانا جاری رکھا۔

ہفتے کے روز طالبان حکام نے کہا تھا کہ کنڑ میں اسی طرح کے حملوں میں پانچ بچے اور ایک خاتون مارے گئے ہیں۔

افغان طالبان کی پاکستان کو تنبیہ

اتوار کو حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو ایک آڈیو پیغام بھیجتے ہوئے کہا ہے، ''امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پر ہونے والی بمباری اور حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ ایک ظلم ہے، یہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ ہم دوبارہ ایسے حملوں کو روکنے کے لیے تمام آپشنز استعمال کر رہے ہیں اور اپنی خودمختاری کا احترام کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستان جان لے کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو یہ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہو گی۔ اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو گا۔‘‘

پاکستانی سفیر کی طلبی

دوسری جانب افغان وزارت خارجہ نے کابل میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان کو طلب کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ احتجاجی مراسلہ پاکستانی سفیر کے حوالے کرنے کے موقع پر افغان وزیر خارجہ امیر متقی اور نائب وزیر دفاع شیریں اخوند بھی وہاں موجود تھے۔ افغان وزیر خارجہ نے اس پاکستانی کارروائی کو 'فوجی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا کہ اسے ان فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر ''شدید تشویش‘‘ ہے اور مشن نقصانات کی تصدیق کر رہا ہے۔

افغان ناظم الامور کی پاکستان میں طلبی

پاکستانی فوجی حکام نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روکے اور ایسے واقعات دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا، ''پاکستان افغانستان کی خود مختار حکومت سے درخواست کرتا ہے کہ وہ پاک افغان سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔‘‘

قبل ازیں جمعے کے روز شمالی وزیرستان میں گھات لگا کر ایک حملے میں سات پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستانی نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے خبردار کیا تھا کہ جوابی کارروائی ہو گی۔

تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور یہ پاک افغان سرحد پر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس عسکری گروہ نے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے۔

فروری میں بھی افغانستان سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی فائرنگ میں چھ پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔

گزشتہ ماہ ٹی ٹی پی نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے پہلے دن سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی شروع کرے گی۔ ٹی ٹی پی پاکستانی حکام پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دے، جب کہ افغان طالبان کی جانب سے غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔

ا ا / ع آ (اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں