پاکستانی حکام کی افغان طالبان لیڈروں کے ساتھ ملاقات
23 مارچ 2017افغانستان میں فعال طالبان نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے اُن کے لیڈروں سے ملاقات کر کے انہیں امن مذاکرات کے عمل میں شریک ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ کثیرالقومی امن مذاکرات اگلے ماہ روسی دارالحکومت ماسکو میں ہوں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سن 2001 میں امریکی فوج کشی کے بعد سے طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان کے کسی خفیہ مقام پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ پاکستانی حکام نے طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک ہونے پر قائل کرنے کی ایک اور کوشش کی ہے۔
طالبان قیادت کے قریب سمجھے جانے والے دو افراد نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو نام مخفی رکھنے کی شرط پر آج جمعرات 23 مارچ کو طالبان لیڈروں اور پاکستانی حکام کی میٹنگ کے بارے میں بتایا۔ ان کے مطابق طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے اپنے مطالبات سے بھی پاکستانی اہلکاروں کو آگاہ کیا۔ پاکستانی حکام نے اس میٹنگ کے حوالے سے کوئی تصدیقی یا تردیدی بیان جاری نہیں کیا۔ ماسکو میٹنگ میں پاکستان، افغانستان، چین اور میزبان ملک روس کے سفارت کار شریک ہوں گے۔ تاہم امریکا نے ابھی تک اِس اجلاس میں شریک ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
دوسری جانب افغان حکام کے مطابق طالبان نے جنوبی صوبے ہلمند کے ضلع سنگین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ سنگین کے پولیس سربراہ محمد رسول کے مطابق طالبان جنگجو آج جمعرات کی صبح ضلعی مرکز میں پہنچ گئے۔ سنگین کو ایک دور میں برطانوی اور امریکی دستوں کے لیے ایک خونریز میدانِ جنگ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ محمد رسول نے یہ بھی کہا کہ پولیس ہیڈکوارٹر کی حفاظت کے لیے بھی مناسب نفری موجود نہیں تھی۔
طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمد نے سنگین پر قبضہ کرنے کا تصدیقی بیان جاری کیا ہے۔ سنگین ضلع کا قبضہ چھڑانے کے لیے کابل حکومت نے حکمت عملی مرتب کرنا شروع کر دی ہے اور اضافی فوجی دستے فوری طور پر روانہ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس ضلع پر قبضہ طالبان کی اُن کوششوں کا ایک حصہ ہے، جن کا مقصد ہلمند میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔
اُدھر شمالی صوبے قُندوز میں ایک پولیس افسر نے اپنے نو ساتھی اہلکاروں کو، جو سو رہے تھے، گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ افغان طالبان کے ایک دوسرے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک سکیورٹی پوسٹ پر کی گئی اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔