حکمران اتحاد میں اختلافات: ’اتحاد و انتشار مفادات کے لیے‘
عبدالستار، اسلام آباد
11 جولائی 2023
اسلام آباد میں حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شدید داخلی اختلافات کی خبریں پھر گرم ہیں۔ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر برہم ہیں۔
اشتہار
سابق وزیر اعظم عمران خان کی مخالف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور اس کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی اختلافات کی زد میں نظر آتے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اس اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان ن لیگ اور پی پی پی سے مستقبل میں شراکت اقتدار کے فارمولے کے معاملے میں سخت خفا ہیں۔
پی ڈی ایم میں ان داخلی اختلافات کے حوالے سے ملک کے کئی حلقوں میں بحث جاری ہے اور ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی اتحاد اور انتشار کا بنیادی نکتہ اقتدار کا حصول یا ذاتی مفادات ہی ہوتے ہیں۔
کچھ دن پہلے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک اہم ملاقات دبئی میں کی تھی، جس کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ انہیں اس ملاقات کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان کے اس شکوے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے ملاقات بھی کی تھی۔ تاہم کئی حلقوں کی رائے میں یہ اختلافات اب بھی موجود ہیں۔
مطالبہ سیاسی حیثیت سے زیادہ
پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی حیثیت سے زیادہ شراکت اقتدار کا دعویٰ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ جس اتحاد میں بھی ہوتے ہیں، اس میں مسائل ہی پیدا ہوتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق موجودہ اختلافات کا تعلق بھی ملک میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے اور شراکت اقتدار کے فارمولے سے متعلق ہے۔
ڈولتی معیشت پاکستان کو دیوالیہ کا شکار بھی کر سکتی تھی
03:36
سیاسی مبصر الطاف بشارت کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمان مستقبل کی حکومت میں نہ صرف اپنی پارٹی کے لیے اہم عہدوں کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ وہ قومی اسمبلی کی بہت سی نشستوں پر انتخاب سے متعلق بھی اتحادیوں سے حمایت کے طلب گار ہیں۔
الطاف بشارت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری اطلاعات کے مطابق نہ صرف چیئرمین سینٹ کی نشست کا مطالبہ کیا جا رہا ہے بلکہ فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی (ایف) ممکنہ طور پر کرسی صدارت پر بھی نظریں لگائے بیٹھی ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی بہت سی نشستوں پر بھی جے یو آئی (ایف) چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس کی حمایت کرے۔‘‘
الطاف بشارت کے مطابق مولانا فضل الرحمان ہمیشہ اپنی سیاسی حیثیت سے زیادہ شراکت اقتدار کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ''جب پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم چھوڑی، تو مولانا فضل الرحمان نے اس وقت بھی اپنا ایک سینیٹر بنوا لیا تھا۔ اب بھی اسی طرح کا تاثر ہے کہ جے یو آئی (ایف) کرسی صدارت میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن پی پی پی اور مسلم لیگ ن کسی صورت بھی ملکی صدر کا عہدہ اس پارٹی کو نہیں دے گی۔‘‘
ماضی کی مثال
پاکستانی سیاست اور سیاسی جماعتوں پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک بھی الطاف بشارت کی سوچ سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) ہمیشہ اپنی سیاسی حیثیت سے زیادہ حد تک شراکت اقتدار کی طالب ہوتی ہے۔
پاکستان، سیلاب گزر گیا لیکن مشکلات نہ ٹلیں
03:32
This browser does not support the video element.
افراسیاب خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف مولانا فضل الرحمان ہی کے دور کی بات نہیں بلکہ انیس سو ستر کی دہائی میں ان کے والد مولانا مفتی محمود کی اس وقت کی پختونخوا اسمبلی میں صرف تین سیٹیں تھیں لیکن پھر بھی جمعیت علماء اسلام کی طرف سے یہ مطالبہ آیا تھا کہ وزیر اعلیٰ اسی جماعت کا بنایا جائے اور ایسا ہو بھی گیا تھا۔‘‘
اشتہار
نہ ختم ہونے والے مطالبات
مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے مطالبات کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی جے یو آئی ایف نے کئی اہم وزارتیں لیں اور صوبے خیبر پختونخوا پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے اس مذہبی سیاسی پارٹی کے عوامی نیشنل پارٹی سے اختلافات بھی بڑھ رہے ہیں۔
افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں جب جمعیت علماء اسلام پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایتی تھی، تو مولانا فضل الرحمان نے بے نظیر بھٹو سے شکایت کی تھی کہ ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جا رہے تھے۔ ''بے نظیر بھٹو نے نصیر اللہ بابر سے اس حوالے سے دریافت کیا۔ نصیر اللہ بابر کا تب جواب تھا کہ بی بی، اگر کوئی کنواں ہو تو ہم اسے بھر دیں، یہاں تو مطالبات کا ایک سمندر ہے۔ اس کو کیسے بھرا جا سکتا ہے؟‘‘
بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان
07:43
This browser does not support the video element.
اتحاد اور مفادات
پاکستان دہشت گردی، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سمیت کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ حکمران سیاسی اتحاد غیر ضروری مسائل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ افراسیاب خٹک کے مطابق یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ شراکت اقتدار اور دوسری غیر عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صوبے کے پی میں دہشت گردی کا ناسور ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ ضلع کرم میں خوفناک لڑائی چل رہی ہے لیکن کسی کی اس طرف توجہ نہیں۔ اس سے عوام میں یہ تاثر جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف جوڑ توڑ اور اپنے اپنے مفادات کے لیے اتحاد بناتی ہیں۔ پھر جب یہ مفادات پورے ہو جاتے ہیں، تو انہی جماعتوں کے رہنما آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
عوام میں مایوسی
سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا اس بارے میں کراچی سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں اختلافات سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''عوام میں تاثر یہ جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے جمع ہوتی ہیں لیکن عوامی مسائل جیسا کہ مہنگائی، غربت، بھوک اور بے روزگاری وغیرہ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘
بات امیر ترین ممالک کی ہو تو قوت خرید، معیار زندگی اور مہنگائی کی شرح کو بھی پیش نظر رکھ کر صورت حال زیادہ واضح ہوتی ہے۔ تاہم اس فہرست میں فی کس مجموعی قومی پیدوار کے اعتبار سے درجہ بندی کی جا رہی ہے۔
تصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images
10 – برونائی دار السلام
قریب 75 ہزار ڈالر فی کس جی ڈی پی کے ساتھ برونائی دسواں امیر ترین ملک ہے۔ برونائی کے سلطان کی رہائش گاہ میں 5000 مہمان ٹھہر سکتے ہیں لیکن ساڑھے چار لاکھ کی آبادی میں سے ایک تہائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس برس اس ملک کی اقتصادی شرح نمو 5.8 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: Albert Nieboer/RoyalPress/dpa/picture alliance
9 – امریکہ
امریکہ 76 ہزار ڈالر فی کس جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا نواں امیر ترین ملک ہے۔ کورونا وبا کے دوران امریکہ کی معیشت بھی شدید متاثر ہوئی تھی لیکن اب یہ بتدریج سنبھل رہی ہے۔ تاہم مجموعی قومی پیداوار زیادہ ہونے کے باجود امریکی شہری گزشتہ چار دہائیوں میں اب تک کی سب سے زیادہ مہنگائی کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: Richard Drew/AP/picture alliance
8 – ناروے
یورپی ملک ناروے قریب 79 ہزار امریکی ڈالر فی کس جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا آٹھواں امیر ترین ملک ہے۔ سن 2020 میں ناروے کی معاشی شرح نمو منفی ایک کے قریب پہنچ گئی تھی تاہم اس برس یہ شرح چار فیصد سے زیادہ رہنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
تصویر: Olavur Frederiksen/abaca/picture alliance
7 – متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات کی فی کس مجموعی قومی پیداوار 78 ہزار ڈالر سے زائد ہے اور یہ ساتواں امیر ترین ملک ہے۔ سن 2020 کے بعد تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے کئی دہائیوں بعد امارات دس امیر ترین ممالک کی فہرست سے نکل گیا تھا۔
تصویر: Giuseppe Cacace/Getty Images/AFP
6 – سوئٹزرلینڈ
سوئٹزرلینڈ کی فی کس مجموعی قومی پیداوار 84,658 ہے اور وہ دنیا کا چھٹا امیر ترین ملک ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی قریب 15 فیصد بالغ آبادی دس لاکھ امریکی ڈالر سے زائد رقم کی مالک ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھی ملکی پالیسیوں کے باعث اس ملک کی شرح نمو نسبتاﹰ کم متاثر ہوئی تھی۔
تصویر: Andy Hooper/SOLO Syndication/picture alliance
5 – مکاؤ
مکاؤ عوامی جمہوریہ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہے اور قریب 86 ہزار ڈالر فی کس جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک ہے۔ کورونا بحران سے قبل مکاؤ کی فی کس مجموعی قومی پیداوار سوا لاکھ امریکی ڈالر کے قریب تھی۔
تصویر: Zoonar/picture alliance
4 – قطر
اس برس 112,789 ڈالر فی کس جی ڈی پی کے ساتھ قطر دنیا کا چوتھا امیر ترین ملک ہے۔ 28 لاکھ کی آبادی والے اس ملک کی محض 12 فیصد آبادی قطری باشندوں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ قطر برس فی کس مجموعی قومی پیداوار ایک لاکھ ڈالر سے کم ہو گئی تھی، اس کے باوجود قریب دو دہائیوں سے قطر امیر ترین ممالک کی ٹاپ ٹین فہرست میں برقرار ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
3 – آئرلینڈ
پانچ ملین آبادی والا ملک آئرلینڈ قریب سوا لاکھ ڈالر فی کس جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کا تیسرا امیر ترین ملک ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران جب یورپ کے دیگر ممالک مشکلات میں گھرے ہوئے تھے تب بھی آئرلینڈ کی معاشی شرح نمو پانچ فیصد کے قریب تھی اور اس برس بھی 5.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: Dawid Kalisinski/Zoonar/picture alliance
2 – سنگاپور
سنگاپور کے باسیوں کی فی کس جی ڈی پی 131,580 امریکی ڈالر ہے اور یوں یہ دنیا کا دوسرا امیر ترین ملک ہے۔ سن 1965 میں آزادی کے وقت سنگاپور کی نصف آبادی پڑھی لکھی تھی لیکن اب شرح تعلیم 98 فیصد ہے۔ اسے دنیا کا سب سے زیادہ کاروبار دوست ملک بھی قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: ROSLAN RAHMAN/AFP/Getty Images
1 – لکسمبرگ
قریب ساڑھے چھ لاکھ نفوس پر مشتمل یورپی ملک لکسمبرگ کی فی کس جی ڈی پی 140,694 امریکی ڈالر ہے اور یوں یہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ لکسمبرگ اپنی آمدن کا بڑا حصہ شہریوں کے لیے رہائشی، طبی اور تعلیمی سہولیات پر صرف کرتا ہے۔
تصویر: Nikolai Sorokin/Zoonar/picture alliance
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش
اس برس بھارت 8,358 ڈالر، بنگلہ دیش 6,633 ڈالر فی کس جی ڈی پی کے ساتھ بالترتیب 127ویں اور 137ویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان کی فی کس جی ڈی پی 6,470 امریکی ڈالر ہے اور وہ 192 ممالک کی اس عالمی درجہ بندی میں 138ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Yann Tang/Zoonar/picture alliance
11 تصاویر1 | 11
جمعیت کی طرف سے تردید
جمعیت علماء اسلام اس بات کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ اس نے مستقبل میں شراکت اقتدار کے حوالے سے کسی بھی طرح کا کوئی مطالبہ کیا ہے۔ اس پارٹی کے اسلام اباد سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما عبدالمجید ہزاروی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے دبئی میٹنگ کے حوالے سے اصولی موقف اختیار کیا تھا۔
عبدالمجید ہزاروی نے ڈبلیو کو بتایا، ''مولانا فضل الرحمان نے صرف یہ بات کہی تھی کہ اخلاقی طور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ چاہیے تھا کہ وہ مولانا کو دبئی میں ملاقات کے حوالے سے اعتماد میں لیتیں۔ اب جب کہ مولانا کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہو گئی ہے، تو تقریباﹰ تمام معاملات طے ہو گئے ہیں۔‘‘
عبدالمجید ہزاروی نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ شراکت اقتدار کے حوالے سے جے یو آئی (ایف) نے کوئی بھی بات کی ہے۔ ان کے بقول، ''ہم نے مستقبل میں نہ سینیٹ کی چیئرمین شپ مانگی ہے اور نہ ہی زیادہ نشستوں یا وزارتوں کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔