پاکستانی حکومت رواں ماہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گی
14 فروری 2023مالی بحران کے شکار پاکستان میں حکومت رواں ماہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ایک بڑا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گی۔ حکام اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہےکہ نئے ٹیکسوں سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں تیزی آ سکتی ہے۔
ماہرین اقتصادیات اور سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ تشویش ایک اس وقت میں سامنے آئی ہے، جب آئی ایم ایف 2019 ء میں پاکستان کے لیے منظور کیے گئے چھ بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی ایک ارب ڈالر سے زائد کی ایک قسط دسمبر سے روکے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف حکام اس تاخیر کی وجہ پاکستان کی طرف سے اس بیل آؤٹ پیکج کے لیے طہ شدہ شرائط پوری کرنے میں ناکامی کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا تازہ ترین دور جمعے کے روز فنڈ کی جانب سے نئے ٹیکس لگانے سمیت چند دیگر اقدامات کی سفارشات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
ماہر اقتصادیات احتشام الحق کے مطابق، ''مزید ٹیکسوں کے نفاذ کا مطلب ہے کہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کے لیے مشکل دن آنے والے ہیں جو پہلے ہی خوراک اور توانائی کے زیادہ اخراجات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اگر پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اس کی اشد ضرورت ہے تو اس سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘
حکومت کے لیے دھچکا
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے لیے ایک دھچکے کے طور پر دیکھا گیا، جو بگڑتے ہوئے معاشی بحران اور عسکریت پسندوں کی طرف سے پر تشدد کاروائیوں میں اضافے کے دوران ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی اس تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نکلنے کے لیے جدو جہد کر رہا ہے، جس میں 2022 ءکے موسم گرما میں 1,739 افراد ہلاک اور 20 لاکھ گھر تباہ ہو گئے تھے۔
جنوری میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے تعاون سے ہونے والی ایک کانفرنس میں درجنوں ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کو موسم گرما کے تباہ کن سیلاب سے بحالی اور تعمیر نو میں مدد کے لیے نو بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا تھا لیکن ماہرین اقتصادیات اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ فنڈز نقدی کی صورت میں نہیں بلکہ منصوبوں کی شکل میں مہیا کیے جائیں گے۔
اس کے بعد پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا کہنا تھا کہ ان کے ماہرین آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط پورا کرنے کے لیے اضافی ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس اور دیگر اشیاء پر سبسیڈیز کم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ احتشام الحق نے کہا کہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد پاکستان میں افراط زر کی شرح 26 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہو جائے گی۔ اس ماہر اقتصادیات کے بقول، ''اگر پاکستان بغیر کسی تاخیر کے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کو بحال کرنے میں ناکام رہا تو عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔‘‘
ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس؟
حکام کا کہنا ہے کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے کئی دوست ممالک نے پاکستانی حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اسلام آباد کی مالی مدد کریں گے لیکن وہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان 2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ طہ شدہ پروگرام مکمل کرے۔ پاکستان کے ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار امتیاز گل کے مطابق موجودہ حکومت کا ان لوگوں پر ٹیکس بڑھانے کا امکان ہے جو پہلے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے لیکن ٹیکسوں میں اضافے سے تمام ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔‘‘
حکومت کا اصرار ہےکہ نئے ٹیکسوں کا نفاذ اس طرح کیا جائے گا کہ اس سے غریب لوگ متاثر نہ ہوں۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے ٹیکس ان لوگوں پر لگائے جائیں گے جو معیشت کو بچانے کے لیے اضافی ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر دو ارب ڈالر سے بھی کچھ کم رہ گئے ہیں۔ یہ رقم صرف دس دنوں کی غیرملکی درآمدات کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات عملاً پیر یا منگل کے بعد دوبارہ شروع ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان خبردار کر رہے ہیں کہ گہرے ہوتے معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان کو سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کھلے عام متنبہ کیا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں پاکستان نے ڈیفالٹ کیا تو عالمی برادری پاکستان کو ملکی ایٹمی پروگرام پر بلیک میل کر سکتی ہے۔
ش ر ⁄ ع آ ( اے پی)