پاکستانی حکومت کے تہرے مسائل، گیلانی کو عدالتی نوٹس
16 جنوری 2012سپريم کورٹ کے جج خاص طور پر صدر زرداری کے خلاف ايک عرصے سے جاری سوئس کرپشن کيس کی سماعت کر رہے ہيں اور ايک ہائی کورٹ کميشن اُس اسکينڈل کی تحقيقات کر رہا ہے جو ميمو گيٹ کے نام سے مشہور ہو چکا ہے۔ ميمو گيٹ کيس کی بنياد امريکہ ميں پاکستان کے سابق سفير حسين حقانی کی جانب سے مبينہ طور پر امريکی فوج کو بھيجا جانے والا ايک خط ہے، جس ميں مبينہ طور پر امريکی خفيہ فوجی دستے کی جانب سے اسامہ بن لادن کو ہلاک کيے جانے کے بعد ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔
ہائی کورٹ کا يہ کميشن 30 دسمبر کو قائم کيا گيا تھا۔ وہ آج حکومت کے دلائل سنے گا اور اس ماہ کے آخر ميں يہ فيصلہ کرے گا کہ کيا امريکی فوج کے نام يہ مبينہ مراسلہ حکومت کی رضامندی سے بھيجا گيا تھا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے آج پیر کے روز کہا کہ کميشن کو اس سلسلے ميں ايک بہت اہم ثبوت نہيں ملا ہے، جو بليک بيری موبائل فون کے ذريعے حسين حقانی اور ايک پاکستانی نژاد امريکی تاجر منصور اعجاز کے درميان پيغامات کے تبادلے پر مشتمل ہے۔ اعجاز نے پچھلے اکتوبر ميں ايک اخباری مضمون ميں لکھا تھا کہ انہوں نے حسين حقانی کا پيغام امريکی فوجی حکام تک پہنچايا تھا۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے اسلام آباد ميں ہائی کورٹ کو رپورٹ دی کہ بليک بيری فرم نے يہ معلومات فراہم نہيں کی ہيں اور منصور اعجاز کے بارے ميں اُنہيں کوئی اطلاع نہيں ملی ہے۔
پاکستانی سپريم کورٹ آج اس پر غور کر رہی ہے کہ صدر زرداری اور دوسرے پارليمانی اراکين کے خلاف کرپشن کے الزامات پر تحقيقات کس طور پر جاری رکھی جائے۔ زرداری اور اراکين پارليمان کا دعوٰی ہے کہ انہيں تعزيراتی کارروائی کے خلاف تحفظ حاصل ہے۔ پچھلے ہفتے ايک چھوٹے پينل کے فيصلہ کرنے ميں ناکام ہونے کے بعد آج ايک بڑا بينچ اس کيس کے امکانات پر غور کر رہا ہے، جن ميں وزير اعظم کی ممکنہ برطرفی اور نئے انتخابات کے انعقاد کا امکان بھی شامل ہيں۔
آج پیر کی سہ پہر پاکستانی قومی اسمبلی ميں ملک کی مخلوط حکومت ميں شامل ايک چھوٹی پارٹی کی طرف سے پيش کی جانے والی ايک قرارداد پر رائے شماری ہو رہی ہے، جس کا مقصد طاقتور فوج اور سول حکومت کے درميان جاری چپقلش ميں حکومت کی پوزيشن کو بہتر بنانا ہے۔ فوج اور حکومت کے درميان کشيدگی پچھلے ہفتے اُس وقت اور شديد ہو گئی تھی جب وزير اعظم يوسف گيلانی نے فوج پر الزام لگايا تھا کہ اُس نے ميمو گيٹ کميشن کو اپنے بيانات حکومت کے توسط سے نہيں بھيجے۔ اس کے بعد وزير اعظم نے وزارت دفاع کے سیکرٹری کو بھی برطرف کر ديا تھا، جن کے فوجی قيادت کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔
سياسی اور دفاعی تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فوج کو اقتدار کی کوئی طلب نہيں ہے اور وہ قانونی ذرائع سے کام ليتے ہوئے حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے۔ اب وزير اعظم گيلانی کشيدگی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہيں اور اُنہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج ملک کی قوت اور مضبوطی کا ستون ہے اور قوم ملک کے دفاع کے ليے اُس کی خدمات کو خراج تحسين پيش کرتی ہے۔تازہ ترين اطلاعات کے مطابق پاکستانی سپريم کورٹ نے کرپشن کے کيس کی سماعت کے دوران وزير اعظم يوسف رضا گيلانی کو کرپشن کيس کی سماعت دوبارہ شروع کرنے کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے توہين عدالت کا مرتکب قرار ديا ہے اور کورٹ نے وزير اعظم کو اسی ہفتے ذاتی طور پر عدالت ميں پيش ہونے کا حکم بھی جاری کر ديا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک