1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی خفيہ سروس آئ۔ ايس۔ آئی

30 جولائی 2010

پاکستان کی ملٹری سيکريٹ سروس " انٹر سروسز انٹيليجينس " يا آئ۔ ايس۔ آئ، صرف فوج کے ماتحت ہے۔ اسے، پاکستان بننے کے ايک سال بعد سن 1948 ميں قائم کيا گيا تھا

آئی ايس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا وزير اعظم يوسف گيلانی کے ساتھتصویر: picture alliance / dpa

افغانستان جنگ کے بارے ميں امريکی خفيہ دستاويزات کے وکی ليک ميں انکشاف کے بعد پاکستان اور امريکہ دونوں پر دباؤ ہے کيونکہ ان دستاويزات کے مطابق پاکستانی خفيہ سروس نے طالبان کو مدد فراہم کی ہے۔

پاکستان کی ملٹری سيکريٹ سروس " انٹر سروسز انٹيليجينس " يا آئ۔ ايس۔ آئ، صرف فوج کے ماتحت ہے۔ اسے، پاکستان بننے کے ايک سال بعد سن 1948 ميں قائم کيا گيا تھا۔ جلد ہی اس ادارے کو نئے نئے کام سونپ ديئے گئے۔ايوب خان کے فوجی دور حکومت ميں سن 1950 اور سن1960 کے عشروں ميں اس نے ملک ميں جمہوری اپوزيشن کی نگرانی کا کام انجام ديا اور اس طرح فوج کی حکمرانی کو مستحکم کيا۔ اس کے بعد جلد ہی آئی ايس آئی نے رياست کے اندر ايک اپنی رياست بنالی۔ آئی ايس آئی بہت طاقتور ہے اور وہ کسی کو خاطر ميں لائے بغير صرف اپنے مفادات کے لئے کام کرتی ہے۔ اُس پر بار بار کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہيں،ليکن اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے ان الزامات کی چھان بين کی کوئی سنجيدہ کوشش نہيں کی گئی ہے۔آئی ايس آئی کو جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت کے کنٹرول کے تحت لانے کی آخری کوشش سن 2008 ميں کی گئی تھی جوبری طرح ناکام رہی۔

آئی ايس آئی کی دلچسپی کا خاص مرکز بھارت ہے کيونکہ اس بڑے پڑوسی ملک کو برطانوی راج کے خاتمے کے بعد تقسيم کے نتيجے ميں بننے والے پاکستان کے وجود کے لئے سنگين خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی کی سمت ميں بھارت کی کوئی ممکنہ پيش قدمی فوج کے لئے ايک شديد خطرہ بن سکتی ہے کيونکہ اس مقام پر پاکستان کی سرزمين نسبتاً تنگ ہے۔ کسی فوجی حملے کی صورت ميں سياسی اور فوجی اعصابی مراکز کی حيثيت سے راولپنڈی اور اسلام آباد شديد خطرے کی زد ميں آ جائيں گے۔اس لئے فوج کے خيال ميں اُسے مغرب کی سمت پسپائی کے لئے اسٹريٹيجک ڈيپتھ يا فوجی دفاعی گہرائی کی ضرورت ہے۔ وہاں، افغانستان کے مشرق ميں، فوج دوبارہ جمع اور منظم ہونے کے بعد جوابی حملہ کرسکتی ہے۔

تاہم اس طريقہ کار پر عمل کے لئے مشرقی افغانستان کے حکمرانوں سے اچھے روابط ضروری ہيں۔ اس لئے آئی ايس آئی کی حکمت عملی کا ايک بہت اہم نکتہ يہ معلوم ہوتا ہے کہ بھارت سے کسی جنگ کی صورت ميں طالبان کے ساتھ پاکستان کا اتحاد اور دونوں کے اچھے باہمی تعلقات انتہائی ضروری ہيں۔ اس کے ساتھ ہی ان تعلقات کی مدد سے افغانستان ميں بھارت کے اثر کو روکا اوربھارت کی طرف سے، پاکستان کے گرد گھيرا ڈالنے کا تدارک کيا جاسکتا ہے۔ اس لئے يہ کوئی حيرت کی بات نہيں کہ افغان خفيہ سروس اور امريکہ ايک عرصے سے پاکستانی خفيہ سروس آئی ايس آئی پر الزام لگا رہے ہيں کہ وہ درپردہ افغانستان ميں طالبان کو مدد اور تربيت فراہم کررہی ہے۔ آئی ايس آئی پر يہ بھی الزام ہے کہ وہ سن 2008 ميں کابل ميں بھارتی سفارتخانے پر حملے اور صدر حامد کرزئی پر ايک قاتلانہ حملے کی ذمہ دار ہے۔

پاکستان ان الزامات کی مسلسل ترديد کرتا رہتا ہے اور وہ اس پر زور ديتا ہے کہ وہ افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد پر کئٍ مہينوں سے طالبان سے جنگ کررہا ہے۔ يہ خود پاکستان کے اپنے مفاد ميں بھی ہے۔آئی ايس آئی کے نقطہء نظر کے مطابق پاکستانی طالبان ايک سنگين خطرہ بن چکے ہيں۔اس کے علاوہ امريکہ ان سے جنگ کے لئے پاکستان کو فوجی اور مالی مدد بھی دے رہا ہے۔

آئی ايس آئٍ کشمير کو بھی اپنی سرگرميوں کا ايک اور اہم ميدان سمجھتی ہے تاکہ بھارت کے اثر کو روکا جاسکے۔ کشمير کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درميان منقسم ہے ليکن دونوں ہی پورے کشمير کے دعويدار ہيں۔ الزام لگايا جاتا ہے کہ پاکستانی فوجی خفيہ سروس آئی ايس آئی نے پاکستان کے زير انتظام کشمير ميں اُن مسلم شدت پسندوں کو تربيت دينے کے کيمپ قائم کررکھے ہيں جنہوں نے بھارت کے زير انتظام کشمير ميں دہشت گردانہ حملے کئے ہيں۔ يہ الزام بھی لگايا جاتا ہے کہ انہی دہشت گرد گروپوں نے آئی ايس آئی کی مدد سے نومبر سن 2008 ميں مومبئی ميں دہشت گردانہ حملے کئے تھے۔ آئی ايس آئی ان الزامات کی سختی سے ترديد کرتی ہے ليکن گرفتار کئے جانے والے مشتبہ افراد نے جزوی طور پر ان کی تصديق کی ہے۔

مومبئی کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے، آئی ايس آئی کی مبينہ سرگرميوں کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درميان کشيدگی کم کرنے کی سفارتی کوششيں شديد طور پر متاثر ہورہی ہيں۔

تحریر: گراوم لوکاس

پیشکش: شہاب صدیقی

ادارت: کشور مصُطفیٰ

۔۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں