پاکستانی خواتین اب آئی ٹی میں خود کو منوا سکتی ہیں
28 اپریل 2020
آئی ٹی کے شعبے سے منسلک افراد کی مانگ دنیا بھر میں ہے۔ ایک ادارہ بہت سستے داموں خواتین کو پروگرامنگ، کوڈنگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے ہنر سکھا کر کئی لڑکیوں کی زندگیاں تبدیل کر رہا ہے۔
اشتہار
بائیس سالہ کائنات ناز نے ایک سال قبل غیر سرکاری تنظیم، سرکل، کے پروگرام 'ٹیک کرو' کے تحت ایک ٹیکنالوجی کورس کیا۔ اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ کورس ان کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کی رہائشی بائیس سالہ ناز ایک اسکول میں ٹیچر تھیں۔ کچی بستی اور انتہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ناز کے لیےنوکری چھوڑ کر ایک آئی ٹی کورس کرنا ایک بڑا رسک تھا۔ اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد اب ناز ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں، جہاں ان کی تنخواہ سابقہ نوکری سے کہیں زیادہ ہے۔ ناز کا کہنا ہے کہ اس کورس میں انہیں ویب ڈیولپمنٹ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کوڈنگ کے علاوہ یہ بھی سکھایا گیا کہ سی وی کیسے بنانی ہے اور خود اعتمادی کے ساتھ انٹرویو کیسے دینا ہے۔
سرکل ادارے کی چیف ایگزیکیٹیو افسر صدف عابد نے 2018ء میں 'ٹیک کرو‘ قائم کیا۔ ان کا مقصد نوجوان خاص کر خواتین کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے لانا تھا۔ صدف کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی پسماندہ طبقے کی خواتین کوبہترین مواقع فراہم کرتی ہے۔ صدف کے مطابق،'' لوگ مجھے کہتے تھے کہ میں اس پروگرام میں خواتین کو شامل نہیں کر پاؤں گی کیوں کہ ان کے پاس کمپیوٹر سائنس کی ڈگری نہیں ہے، یا خواتین یہ پروگرام چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کورس مکمل کرنے والے پچاس فیصد طلبا کو نوکریاں مل گئی ہیں اور ان میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ پاکستان میں صرف چودہ فیصد خواتین ملک کے آئی ٹی سیکٹر سے وابستہ ہیں۔
صدف نے پاکستان میں'شی لوز ٹیک' نامی مقابلے کو بھی متعارف کرایا جو دنیا میں خواتین کے سٹارٹ اپس کا سب سے بڑا مقابلہ ہے۔
کائنات ناز کا کہنا ہے کہ کامیابی کے لیے گھر والوں کی مدد بھی چاہیے۔ کائنات کے مطابق اس کی والدہ اور چھوٹے بھائی کی مدد سے وہ پانچ سو روپے ماہانہ کا کورس مکمل کر پائی۔ کائنات کا کہنا ہے،''مجھے گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا تھا، لیکن گھر سے نکل کر یہ ڈر نکل گیا، میری کمپنی کو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں نقاب پہن کر کام کرتی ہوں، انہیں صرف میرے کام سے مطلب ہے۔''
صدف کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے باوجود ان کا کام متاثر نہیں ہوا اور خواتین گھر میں رہ کر بھی کام سیکھ سکتی ہیں،''ہمیں پاکستان کے مختلف علاقوں سے ٹیک کرو کے کورس میں شامل ہونے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ہم ہزاروں خواتین کو پاکستان کی ترقی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
ب، ج/ ع ا (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)
خواتین کا عالمی دن: پاکستان میں اس مرتبہ پوسٹرز کیسے تھے؟
اس مرتبہ عورت مارچ کی مشروط اجازت دی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی مظاہرے کیے۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے مظاہروں کی تصاویر۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی ریلی میں بھی ہزاروں افراد کی شرکت
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے عورت مارچ میں اس مرتبہ کراچی میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کے حقوق سے متعلق نعرے درج تھے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا، جس پر درج تھا: ’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
’میرا جسم میری مرضی‘
اس نعرے کی تشریح اس مرتبہ بھی مختلف انداز میں کی گئی۔ کئی حلقوں نے اسے جسم فروشی کی ترویج قرار دیا، جب کہ حقوق نسواں کے علم برداروں کے نزدیک اس کا مفہوم مختلف ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں‘
مظاہرے میں مرد بھی شریک ہوئے۔ ایک مرد نے ایک پوسٹر پر لکھ رکھا تھا، ’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں، سوچ میں‘ (ہے)۔
تصویر: DW/R. Saeed
’دونوں نے مل کر پکایا‘
ایک پوسٹر پر درج تھا ’چڑا لایا دال کا دانہ، چڑیا لائی چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر پکایا، مل کر کھایا‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
سیاست دان بھی شریک
عورت مارچ میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
بزرگ خواتین نے بھی مارچ کیا
کراچی میں منعقد ہونے والے عورت مارچ میں معمر خواتین بھی شامل ہوئیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
’بے شرم کون؟‘
ایک خاتون نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’دیکھتے ہو اسے بے شرمی سے تم، پھر کہتے ہو اسے بے شرم تم‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاپتا بلوچ خواتین کے حق میں پوسٹرز
عورت مارچ کے دوران ایسی بلوچ خواتین اور مردوں کے حق میں بھی پوسٹرز دیکھے گئے جو ’جبری طور پر گمشدہ‘ ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاہور: ’بچوں پر جنسی تشدد بند کرو‘
صوبائی دارالحکومت لاہور میں اس برس بھی عورت مارچ میں خواتین نے بھرپور شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور میں مرد بھی شانہ بشانہ
لاہور میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بڑی تعداد نے بھی عورت مارچ میں شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مارچ زیادہ منظم
اس مرتبہ عورت مارچ کی مخالفت اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسے بہتر انداز میں منظم کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’ہمارے چینل ہماری مرضی‘
لاہور میں عورت مارچ کے دوران ایسے پوسٹر بھی دکھائی دیے جن پر پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر پر پابندی لگانے کے مطالبے درج تھے۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں ماروی سرمد سے بدتمیزی کی تھی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’عورت اب آواز بھی ہے‘
پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر سے متعلق دیگر پوسٹرز پر بھی انہی کے متنازعہ جملوں کو لے کر طنز کیا گیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’اس دور میں جینا لازم ہے‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے اپنے چہرے پر آزادی تحریر کر رکھا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مذہبی جماعتوں کی ’حیا واک‘
اسلام آباد میں عورت مارچ کے مد مقابل کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر مذہبی تنظیموں نے ’حیا واک‘ کا انعقاد کیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
’جسم کی حفاظت پردہ ہے‘
’حیا واک‘ میں جامعہ حفصہ کی طالبات بھی شریک ہوئیں، جنہوں نے عورت مارچ کے شرکاء ہی کی طرح مختلف پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
اسلام آباد کا عورت مارچ
پاکستانی دارالحکومت میں اس مرتبہ بھی عورت مارچ کے شرکاء نے دلچسپ پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
’عزت کے نام پر قتل نہ کرو‘
عورت مارچ میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پوسٹر تھا، جس پر درج تھا: ’مجھے جینے کا حق چاہیے‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘
ایک نوجوان لڑکی نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’میں جنسی زیادتی کے متاثرین کے لیے مارچ کرتی ہوں‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
سکیورٹی کے باوجود پتھراؤ
اسلام آباد انتظامیہ نے دونوں ریلیوں کے شرکاء کو الگ رکھنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ تاہم اس کے باوجود پتھراؤ کے واقعات پیش آئے، جس کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا گیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
جماعت اسلامی کی تکریم نسواں واک
مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تکریم نسواں واک کا انعقاد کیا۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
’قوموں کی عزت ہم سے ہے‘
اسلام آباد میں تکریم نسواں واک میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ ایک پوسٹر پر درج تھا ’ہمارا دعویٰ ہے کہ خواتین کو حقوق صرف اسلام دیتا ہے‘۔