پاکستانی خواتین: تشدد سے بچنے کے لیے طلاق ’ایک گالی‘ نہیں رہی
9 جنوری 2013قدامت پسند مسلم اکثریتی معاشرے کے حامل میں پاکستان میں طلاق کو سماجی سطح پر انتہائی معیوب سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم ملک میں ملازمتوں میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار اور حقوق کے حوالے سے شعور اس سلسلے میں نئی جہت کا تعین کر رہا ہے۔ تعداد کے اعتبار سے اب بھی گھریلو تشدد سے بچنے کے لیے طلاق کا فیصلہ کرنے والی خواتین کی تعداد اب بھی بہت زیادہ تو نہیں، مگر اس سے اس رجحان کا اندازہ ہوتا ہے کہ مردوں کے برتری کے حامل اس معاشرے میں مستقبل میں خواتین اپنے حقوق کے حصول کے لیے ان رسومات کے خلاف قدم اٹھا سکتی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں خُلع کے لیے درخواست دینے والی خواتین کو ان کے وکلاء اور کبھی کبھی عدالت سے گھر کے راستے پر قتل کر دینے جیسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکومت پاکستان طلاق کے حوالے سے اعداد و شمار جمع نہیں کرتی ہے تاہم اسلام آباد آربیٹریشن کونسل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 1.7 ملین آبادی کے شہر اسلام آباد میں سن 2011ء میں 557 جوڑوں نے علیحدگی اختیار کی جبکہ سن 2002ء میں یہ تعداد صرف 208ء تھی۔
اسلام آباد کی رہائشی رابعہ، محبت سے خالی ’ارینجڈ‘ میرج کو ختم کر چکی ہیں۔ 26 سالہ رابعہ نے روئٹرز کے ایک صحافی سے گفتگو میں کہا،’اگر آپ کماتے ہیں، تو آپ اپنے شوہر سے صرف محبت اور اپنائیت چاہتے ہیں اور اگر وہ یہ دینے میں ناکام رہتا ہے، تو آپ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔‘
ادھر پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے عورت فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ سن 2012ء میں ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے 1636 واقعات سامنے آئے۔ اس ادارے کے مطابق کسی لڑکی کو قتل کرنے کے لیے یہ الزام کافی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے خاندان کی عزت میں کمی آئی۔
تاہم اس ادارے کا کہنا ہے کہ جوں جوں ملکی خواتین ملازمتوں کے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں، گھریلو تشدد کے خلاف ان کی آواز بلند ہوتی جا رہی ہے اور معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ ان کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔
(at / ah (Reuters