پاکستان زیادہ تر زرعی معیشت والا ملک ہے جہاں دیہی علاقوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ لیکن برابر محنت کے باوجود یہ کروڑوں دیہی خواتین اپنے حقوق کے حصول میں مردوں سے بہت پیچھے ہیں۔
اشتہار
اتوار پندرہ اکتوبر کو منائے جانے والے دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں یہ بات حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور سماجی ماہرین کے لیے پریشانی کا باعث ہے کہ پاکستان میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، دیہی علاقوں کی عورتوں کو شہری علاقوں کی خواتین کی نسبت محنت تو کہیں زیادہ کرنا پڑتی ہے لیکن اپنی محنت کے معاوضے اور حقوق کی جدوجہد میں دیہات میں رہنے والی عورتیں شہری علاقوں کی خواتین سے کہیں پیچھے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں تیز رفتار ترقی اور سماجی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کو بھی مردوں کے برابر حقوق دینے، خاص طور پر دیہی علاقوں کی محنت کش خواتین کو ان کے جملہ طبی، تعلیمی اور قانونی حقوق دیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستانی دیہی علاقوں میں خواتین کن سماجی روایتی عوامل کی وجہ سے ہمیشہ پیچھے ہی رہی ہیں، ماہرین عمرانیات اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں،’’ کھیتوں میں کام کرنے، مویشی پالنے اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری بھی چلانے والی ان خواتین کو اکثر نہ تو جائیداد میں کوئی حصہ دیا جاتا ہے، نہ ہی کوئی زمین ان کی ملکیت ہوتی ہے، تعلیم میں بھی وہ بہت پیچھے رہ جاتی ہیں اور طبی سہولیات سے تو ان کی ایک بہت بڑی اکثریت محروم ہی رہتی ہے۔‘‘
پاکستان میں دیہی خواتین کی صورت حال کے بارے میں انہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر عاصم ملک کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا،’’ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ اس کی ستّر فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ دیہی علاقوں کی خواتین وہاں کی معیشت، خاص کر زراعت میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی حالت اچھی نہیں۔ وجہ وہ حالات ہیں، جن کا ان کو مقامی طور پر سامنا رہتا ہے۔ صحت کے حوالے سے بھی اور اقتصادی طور پر بھی۔‘‘
عاصم ملک نے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک طرف صحت کی سہولیات کا فقدان ہے تو دوسری طرف دیہی خواتین معاشی طور پر بھی خود مختار نہیں۔ ان کا اپنی ہی آمدنی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے کافی کام کیا بھی جا رہا ہے۔ لیکن جب تک عورتوں کی سیاسی عمل میں مؤثر شمولیت ممکن نہیں ہوتی، وہ عملی طور پر استحکام حاصل نہیں کر سکتیں۔ پاکستان میں چند گنی چنی خواتین ایسی ہیں جن کا تعلق تو دیہی علاقوں سے ہے لیکن جو آج قومی یا صوبائی پارلیمانوں کی ارکان ہیں۔ لیکن یہ تعداد انتہائی کم ہے۔ جب تک خواتین سیاسی نمائندگی میں بھر پور حصہ نہیں لیں گی، ان کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔‘‘
پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین میں خواندگی کی شرح اور مجموعی تعلیمی صورتحال جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے جب معروف ماہر تعلیم اور تجزیہ نگار ڈاکٹر ناظر محمود سے گفتگو کی، تو انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں خواندگی کا مجموعی تناسب چالیس فیصد ہے۔ لیکن بلوچستان اور وہاں کے قبائلی علاقوں میں یہ شرح مزید کم ہو کر پانچ اور دس فیصد کے درمیان رہ جاتی ہے۔ تقریباﹰ یہی شرح صوبے خیبر پختونخواکے قبائلی علاقوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ناظر محمود سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستانی دیہی علاقوں کی خواتین میں انتہائی کم شرح خواندگی کی بڑی وجوہات کیا ہیں، تو انہوں نے بتایا، ’’پہلا مسئلہ یہ کہ دیہی علاقوں میں تعلیمی ادارے کم ہیں اور وہ اکثر کافی فاصلے پر ہوتے ہیں۔ پھر پدرشاہی معاشرے میں بچیوں کو اسکول پہنچانے اور واپس لانے میں گھروں کے مرد بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے اور ٹرانسپورٹ کی مقامی سہولیات کا فقدان بھی ایک وجہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر ناظر نے چند دیگر اہم وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے مزید کہا، ’’دیہی علاقوں میں پڑھی لکھی خواتین کی شرح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے دیہات میں بچیوں کی لیے خواتین ٹیچرز کا انتظام بھی تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
پاکستان میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خان اپنی ٹیم کے ہمراہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کے مختلف شہروں کی جیلوں میں بند خواتین اور ان کے بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں دیہی علاقوں کی خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک سوال کے جواب میں بتایا، ’’جب ہماری تنظیم نے کام شروع کیا تھا، تو پاکستانی جیلوں میں سہولیات کا فقدان تھا۔ جیلوں میں بند دیہی علاقوں کی خواتین تو ناخواندگی کے باعث اکثر اپنے حقوق سے بالکل ناواقف ہوتی تھیں۔ آج بھی دیہی خواتین کی صورت حال زیادہ نہیں بدلی۔ لیکن ہماری تنظیم اور ہمارے ساتھی کارکن ان خواتین قیدیوں کی قانونی اور سماجی مشاورت کرنے کے علاوہ ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کر سکیں۔‘‘
پاکستان میں خواتین، خاص کر دیہی علاقوں کی خواتین کے بارے میں عوام اور میڈیا کی سطح پر کیا تاثر پایا جاتا ہے، اس بارے میں پاکستانی میڈیا میں بہتر صنفی نمائندگی کے موضوع پر کام کرنے والے محمد اقبال خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملک کے ایک بڑے حصے، خاص کر پنجاب اور سندھ میں زراعت کے شعبے میں خواتین بہت محنت کرتی ہیں۔ لیکن انہیں نہ تو ان کی محنت کا معقول معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی ان کی خدمات کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔‘‘
پاکستانی خواتین: روزگار اور مواقع
پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب اکاون فیصد اور خواتین کا تناسب انچاس فیصد ہے لیکن روزگار کی ملکی منڈی میں خواتین کی تعداد مردوں سے نصف ہے۔ پاکستان کی ملازمت پیشہ یا اپنا کوئی کام کرنے والی خواتین کے چہرے:
تصویر: DW/I. Jabeen
پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر
پیدائشی طور پر گوجرانوالہ اور آج کل راولپنڈی کی رہائشی شمیم اختر پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون ہیں۔ چون سالہ شمیم مالی مجبوریوں کی وجہ سے مال بردار ٹرک کی ڈرائیور بنیں حالانکہ اس شعبے میں ڈرائیونگ صرف مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلاتی ہیں لیکن مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کا تناسب انتہائی کم ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ترقیاتی شعبے میں خدمات
اسلام آباد کی رہنے والی سیدہ مجیبہ بتول گزشتہ سولہ برسوں سے ترقیاتی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے کام کر چکی ہیں اور اس وقت ترقیاتی شعبے میں انتظامی امور کے ایک مشاورتی ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجیبہ کی طرح بہت سی دیگر پاکستانی خواتین بھی غیر حکومتی ترقیاتی شعبے میں کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اس شعبے میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
تصویر: Mujeebah Batool
سڑکوں سے کوڑے کرکٹ کی صفائی
چھپن سالہ شاہدہ شموئیل کو اسلام آباد میں سڑکوں پر صفائی کرتے برسوں گزر چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ترقیاتی امور کے نگران ادارے سی ڈی اے کی ملازمہ ہیں۔ شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے چند شادی شدہ بھی ہیں لیکن خود شاہدہ کا مالی طور پر ان کی تنخواہ میں گزارہ مہنگائی کی وجہ سے ناممکن ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین قیدیوں کی مدد
فوزیہ خالد ایک ماہر نفسیات ہیں، جو خواتین کی بہبود کے شعبے میں خاص طور پر ایسی عورتوں پر توجہ دیتی ہیں، جن پر پاکستانی معاشرے میں سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے۔ فوزیہ جیلوں میں بے سہارا خواتین کی مدد کرنے والے ایک نجی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں اور اپنا کافی وقت مختلف جیلوں، خاص کر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی قیدیوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خواتین کے زیر جاموں کی فروخت
سمعیہ بی بی اسلام آباد میں پشاور موڑ پر ہر اتوار بازار میں دو سال سے اپنا سٹال لگاتی ہیں اور خواتین کے زیر جامے فروخت کرتی ہیں۔ وہ یہ سامان خود پشاور سے لا کر اسلام آباد میں بیچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ان مردانہ نظروں پر غصہ آتا ہے، جن میں عورت کے لیے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ سمعیہ کی طرح بہت سی پاکستانی خواتین مختلف مارکیٹوں میں کئی طرح کا سامان بیچتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیمی شعبے میں خدمات
شگفتہ اسد کی بچوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کیے ہوئے سپرنگ بورڈ اسکول سسٹم کی متعدد شاخیں چلاتی ہیں۔ شگفتہ کی بنیادی ذمہ داری ایک منتظمہ کی ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسکول جانے کی عمر کے کئی ملین بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، پاکستانی تعلیمی شعبے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
تصویر: Shagufta Asad
ڈاکٹروں کے طور پر ناگزیر کردار
ڈاکٹر فرحت ارشد راولپنڈی میڈیکل کالج اور کئی دیگر طبی اداروں سے وابستہ زچہ و بچہ سے متعلق امراض کی ایک ماہر معالج ہیں۔ پاکستان میں بہت سے شہری طبی سہولیات سے محروم ہیں اور ملکی آبادی میں ڈاکٹروں کا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تناسب بھی خوش کن نہیں۔ پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر بننے کا رجحان کئی برسوں سے کافی زیادہ ہے۔ اکثر خواتین علاج یا معائنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں کے پاس ہی جانا چاہتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نرسنگ، ایک پسندیدہ پیشہ
کوئی ہسپتال سرکاری ہو یا نجی، شہر میں ہو یا دیہی علاقے میں، نرسنگ کے بغیر طبی شعبے کی کامیاب کارکردگی کا تصور کہیں بھی ممکن نہیں۔ پاکستانی طبی شعبے میں نرسنگ کرنے والے پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد میں خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بڑی اکثریت میں رہی ہے۔ مرد نرسوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔ پورے پاکستان میں کل وقتی یا جزوقتی عملے کے طور پر لاکھوں خواتین پیشہ ور نرسوں کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھریلو خواتین، نظر انداز کر دی گئی اکثریت
شبانہ حارث اسلام آباد میں رہتی ہیں، شادی سے پہلے باقاعدہ ملازمت کرتی تھیں لیکن اب دو بچوں کی والدہ ہیں اور ایک گھریلو خاتون۔ خانہ داری کرنے والی کسی بھی خاتون یا ہاوس وائف کا صبح سے شام تک جاری رہنے والا کام کسی کل وقتی ملازمت یا روزگار سے کم نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی خواتین معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی میں اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتیں۔
تصویر: Shabana Haris
لاکھوں گھریلو ملازمائیں
پاکستانی دارالحکومت میں پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بائیس سالہ ناصرہ کو ماہانہ دس ہزار روپے ملتے ہیں، جو دراصل اسے نہیں ملتے بلکہ اس کے والدین آ کر لے جاتے ہیں۔ ناصرہ اپنے آجر خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ پاکستان میں کئی لاکھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جو گھریلو خادماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
فٹنس اور یوگا کی نجی تربیت
اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں معروف فٹنس ٹرینر صنوبر نظیر خواتین کو بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ملازمت اور بزنس پیشہ خواتین کو نجی طور پر جسمانی فٹنس اور یوگا کی تربیت دیتی ہیں۔پاکستان میں کئی ایسے شعبے ہیں، جن میں خواتین دوسری خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ ان میں یوگا، فٹنس، پیراکی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نجی ٹریننگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
انٹیریئر ڈیزائننگ کے ذریعے خود انحصاری
آرٹ کے پس منظر کی حامل اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی پارس محمود شاہ ایک انٹیریئر ڈیزائنر ہیں جنہوں نے ثقافتی ورثے سے اپنی محبت کے باعث گھروں اور غیر رہائشی عمارات کی اندرونی تزئین و آرائش کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس آرائش کے لیے ٹائلوں، دیواروں اور فرنیچر کی پینٹنگ سے کام لیتی ہیں۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کو ملا کر جس طرح اپنا پیشہ انہوں نے بنایا ہے، ویسا بہت کم پاکستانی خواتین کرتی ہیں۔
تصویر: Paras Shah
بیوٹی پارلر چلانا بھی ایک کامیاب پیشہ
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہزارہا خواتین نے اپنے میک اپ سیلون اور بیوٹی پارلر کھول رکھے ہیں، شادیوں پر دلہنوں کا خطیر رقوم دے کر پارلر سے میک اپ کروانا ایک روایت بن چکا ہے۔ اس طرح بہت سے ایسی خواتین کے لیے بھی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کسی سائنسی پیشے کی ماہر نہیں بھی ہوتیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک نیا اور کامیاب رستہ کھل چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زرعی شعبے میں خواتین کا حصہ
ایک نیم دیہی علاقے میں مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے والی یہ خواتین پاکستان کی ان کئی ملین خواتین کے کردار کی علامت ہیں، جو دیہی علاقوں میں زرعی شعبے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان کی قریب 65 فیصد آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ پاکستانی معیشت زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے، جس میں خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔